غصہ پی جانا
قرآن میں ایک اہم اخلاقی اصول بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ اجتماعی زندگی میں جب ایک آدمی کو دوسرے کے اوپر غصہ آئے تو اس کو چاہیے کہ وہ غصہ کو پی جائے اور اس کو معاف کردے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی آیت یہ ہے:وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُمْ يَغْفِرُونَ (42:37)۔ اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی ہمیشہ کچھ لوگوں کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ لوگوں کی طرف سے اس کو بار بار ناخوش گوار قسم کے تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن ناخوش گوار تجربات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر بطور ردّ عمل طرح طرح کے غیر حقیقی جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مثلاً غصہ، وغیرہ۔
غصہ ایک غیر فطری حالت ہے، اور غصہ پرکنٹرول کرنا، زندگی کی شاہ کلید (master key) ہے۔ جس انسان نے غصہ کو کنٹرول کرنے کا آرٹ سیکھ لیا، اس نےکامیاب زندگی کا راز پالیا۔جب آدمی کوغصہ آتا ہے تو اس کادماغ اپنی فطری حالت پر باقی نہیں رہتا۔ وہ معتدل انداز میں سوچنے پر قادرنہیں رہتا۔ غصہ میں مبتلا انسان نہ درست طور پر سوچ پاتا اور نہ درست طور پر اپنے عمل کی منصوبہ بندی کر سکتا ۔ غصہ کسی آدمی کااعتدال چھین لیتا ہے۔ وہ اس کو غیر معتدل انسان بنا دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غصہ کو پی جانا خود اپنے آپ کی حفاظت کرنا ہے۔ غصہ کو پی جانا اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی حقیقت پسندانہ انداز میں سوچے۔ وہ زیادہ نتیجہ خیز انداز میں اپنی کارروائی کی منصوبہ بندی کرے ۔ غصہ کو پی جانا خارجی اعتبار سے ایک اخلاقی سلوک ہے۔ مگر داخلی اعتبار سے وہ اپنی تعمیر کے ہم معنی ہے۔ جب کوئی آدمی غصہ کے حالات میں غصہ نہ کرے تو وہ اپنے آپ کو بچاتا ہے۔ وہ اپنی قوت کو منفی رخ پر جانے سے روکتا ہے اور اس طرح اپنے آپ کو اس قابل بنا تا ہے کہ وہ اپنے وسائل کو بھر پور طور پر صرف اپنی تعمیر میں لگائے ۔ دوسرے کی تخریب میں غیر ضروری طور پر وہ اپنے وسائل کا کوئی حصہ ضائع نہ کرے۔