صلح بہتر ہے
سورہ النساء میں زندگی کا ایک اصول ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا أَنْ يُصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَالصُّلْحُ خَيْرٌ، وَأُحْضِرَتِ ٱلأَنفُسُ ٱلشُّحَّۚ ( 4:128)۔ یعنی، اس میں کوئی حرج نہیں کہ دونوں آپس میں صلح کرلیں اور صلح بہتر ہے۔ اور حرص انسان کی طبیعت میں بسی ہوئی ہے۔
قرآن کی اس آیت میں صلح کو بہتر بتایا گیا ہے۔ یہ بات بظاہر میاں بیوی کی نزاع کے بارے میں ہے مگر اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔ صلح ایک ا علیٰ تدبیر ہے جوہر نزاعی مسئلہ کا واحد کامیاب حل ہے، خواہ و ہ نزاعی مسئلہ انفرادی ہو یا اجتماعی، خواہ وہ قومی ہو یا بین اقوامی۔
جب بھی دوآدمیوں یا دوفریقوں کے درمیان کوئی نزاع پیش آتی ہے تو اس کےحل تک نہ پہنچنے کا سبب صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ حرص ہے۔ یعنی عملاً جو کچھ مل رہا ہے اس پر راضی نہ ہو نا اور اس سے زیادہ چاہنا۔ یہی حرص یازیادہ چاہنے کا مزاج نزاع کو ختم نہیں ہونے دیتا ۔ وہ آخر کار بڑھ کر باقاعدہ ٹکرائو کا سبب بن جاتا ہے۔اس کے مقابلہ میں صلح یہ ہے کہ بروقت جو کچھ عملی طور پر مل رہا ہے اس پر راضی ہو کرنزاع کو ختم کر دینا۔ جب ایک شخص صلح کے اس طریقہ کو اختیار کرے تو اپنے آپ نزاع کی حالت ختم ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد یہ نوبت ہی نہیں آتی کہ نزاع بڑھ کر ٹکرائو بن جائے۔ نتیجہ کے اعتبار سے دیکھیے تو حرص کا طریقہ ہمیشہ مزید نقصان کا سبب بنتا ہے، اور صلح کا طریقہ کام کے مواقع کھو لتا ہے جس کو اویل (avail)کرکے مزید ترقی حاصل کی جاسکتی ہے۔
صلح کوئی سادہ بات نہیں۔ صلح اپنے آپ میں سب سے بڑاعمل ہے۔ صلح بظاہر میدان مقابلہ سے واپسی ہے۔ مگر عملاً وہ اقدام کی سب سے بڑی تدبیر ہے۔ جب کہ کوئی فردیا گروہ صلح کرلے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنے لیے ایک ایسا ماحول پالیا جس کے اندر وہ ٹکرائو میں وقت ضائع کیے بغیر اپنے پورے وقت اور طاقت کو اپنے تعمیری منصوبہ میں لگائے— غیر مصالحانہ طریقہ، زندگی کے سفر کو روک دیتا ہے ۔ اس کے برعکس، مصالحانہ طریقہ زندگی کے سفر کوروکے بغیر دوبارہ مزید اضافہ کے ساتھ جاری کر دیتاہے۔