اکثریت پر اقلیت کاغلبہ

قرآن کی سورہ البقرہ میں ایک قدیم واقعہ کاذکر ہے ۔ اس کے تحت فطرت کے ایک ابدی قانون کوبتایا گیا ہے، ایک ایسا قانون جو کبھی بدلنے والانہیں۔ا س سلسلہ میں قرآن کی مذکورہ آیت کا ایک حصہ یہ ہے: كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَاللَّهُ مَعَ الصَّابِرِينَ (2:249)۔ یعنی،  کتنے ہی چھوٹے گروہ اللہ کے حکم سے بڑے گروہ پر غالب آئے ہیں۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

قرآن کی اس آیت میں چھوٹے گروہ اور بڑے گروہ کے درمیان پیش آنے والے جس واقعہ کو بتایا گیا ہے وہ کوئی پراسرار بات نہیں، وہ مکمل طور پر ایک فطری واقعہ ہے جو معلوم قانون کے تحت پیش آتا ہے ۔مزید یہ کہ اس کا تعلق ہر گروہ سے ہے، خواہ وہ مذہبی ہو یا غیر مذہبی ۔ خواہ وہ ایک ملک کا رہنے والا ہو یا کسی دوسرے ملک کارہنے والا۔ خواہ وہ ایک زمانہ میں رہنے والا ہو یا کسی دوسرے زمانہ میں رہنے والا ۔

اصل یہ ہے کہ ہر انسان کے اندر پیدائشی طورپر اتھاہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ مگر ابتدائی طور پر یہ صلاحیت سوئی ہوئی ہوتی ہے۔ جو چیز اس صلاحیت کو جگاتی ہے وہ صرف ایک ہے ، اور وہ چیلنج کی حالت ہے، یعنی ایک دوسرے سے مسابقت (competition) کا چیلنج۔ اسی حالت کوقرآن میں عداوت(البقرۃ، 2:30؛الا عراف،7:24) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ چیلنج( یا عداوت) کے حالات آدمی کے اندر سوئی ہو ئی صلاحیتوںکوجگا تے ہیں۔ اور جن لوگوں کو چیلنج والے حالات پیش نہ آئیں ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بیدارنہیں ہوتیں۔ وہ ایک کمترانسان کی مانند جیتے ہیں اور کمتر انسان کی مانند مرجاتے ہیں۔

چھوٹے گروہ اور بڑے گروہ کے درمیان فرق اسی فطری قانون کی بناپرپیش آتا ہے۔ کسی سماج میں جب ایک گروہ کم تعداد میں ہو اور دوسراگروہ زیادہ تعداد میں تو اس فرق کی بناپر دونوں کو الگ الگ حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔ ایک کو صبر کی مشقت سے گذرنا پڑتا ہے اوردوسراصبر کی مشقت سے بچارہتاہے۔ چھوٹا گروہ مسلسل طور پر بڑے گروہ کے مقابلہ میں چیلنج کی حالت میں رہتا ہے۔ اس دبائو کی بناپر چھوٹے گروہ کے لوگوں کی صلاحیتیں مسلسل بیدار ہوتی رہتی ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں دوسراگروہ اپنی برترپوزیشن کی بنا پر چیلنج یادبائو کی صورت حال سے بچاہوا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کی صلاحیتیں زیادہ بیدارنہیں ہوتیں۔

اس فرق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے یا کمزور گروہ کی تخلیقیت(creativity) بڑھتی رہتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسراگروہ مسلسل طور پر غیر تخلیقیت(uncreativity) کا شکار ہوجاتا ہے۔ یہ عمل خاموشی کے ساتھ اور مسلسل طورپرجاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آتا ہے، جب کہ ایک گروہ پورے معنوں میں تخلیقی گروہ(creative group) بن جاتا ہے، اور دوسراگروہ پورے معنوں میں غیر تخلیقی گروہ (uncreative group) کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔

قرآن کی یہ آیت ایک فطری حقیقت کو بتاتی ہے ۔ اس کامطلب یہ ہے کہ فئۃ قلیلۃ (غیر محفوظ گروہ) مسلسل اپنی اہلیت کو بڑھا تا رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ تعداد کی قلت کے باوجود اپنی برترصفات کی بنا پر عملاً غالب حیثیت حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے برعکس، فئۃ کثیرۃ( محفوظ گروہ) مسلسل طور پر انحطاط کا شکار ہوتا رہتاہے۔ وہ باہمی اتحاد، گہر ی سوچ اور دور رس عمل جیسی صلاحیتیوں سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آخر کار اپنی ہی دنیا میں عملا ًمغلوب ہو کررہ جاتاہے۔

روزہ اس بات کا سبق ہے کہ کبھی ایک جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے اور ایک مطلوب چیز بھی غیر مطلوب بن جاتی ہے۔

اسلام یہ ہے کہ انسان خدا کی منع کی ہوئی چیزوں سے رک جائے۔روزہ ہر سال یہی سبق دینے کے لیے فرض کیا گیا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom