قوموں کاعروج وزوال
قرآن کی سورہ الرعد میں بتایا گیا ہے کہ قوموں کے عروج وزوال کا قانون کیا ہے۔ یہ فطرت کے ایک اصول پر مبنی ہے جس کاذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (13:11)۔ یعنی، بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کونہیں بدلتا جب تک کہ وہ اس کو نہ بدل ڈالیں جو ان کے جی میں ہے۔
قرآن کی اس آیت میں مَا بِقَوْم سے مراد کسی قوم کی اجتماعی حالت ہے اورمَا بِأَنْفُسسے مراد کسی قوم کی انفرادی حالت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ کسی قوم کی اجتماعی ترقی کاراز یہ ہے کہ اس کے افراد کے اندر انسانی صفات(human qualities) اعلیٰ درجہ میں موجود ہوں۔ اس کے برعکس، کسی قوم کا اجتماعی زوال اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کے افراد کے اندر اعلیٰ انسانی صفات باقی نہ رہیں۔ فرد کی حالت ہی پرترقی کا انحصار بھی ہے اور تنزل کا بھی ۔ کوئی گروہ اگر اجتماعی سطح پر ترقی کرناچاہتا ہے تو اس کو اپنے افراد کی اصلاح پر اپنی پوری طاقت کو صرف کرنا چاہیے۔
فطرت کایہ قانون بتا تا ہے کہ کوئی قوم اگر گراوٹ کا شکار ہو جائے تو اس کو دوبارہ اٹھانے کا عمل کہاں سے شروع کرنا چاہیے ۔ اس کاواحد کار گر طریقہ یہ ہے کہ افراد کے اندر پھر سے شعوری بیداری لائی جائے ۔ افراد کے سیرت وکردار کو بلندکیا جائے۔ افراد کے اندراتحاد اور انسانیت کی روح کو جگا یا جائے۔
قومی اصلاح کایہی واحد طریقہ ہے ۔ اس کے برعکس، اگر قومی اصلاح کے نام پر عمومی تحریک (mass movement) چلائی جائے، جلسوں اور عوامی تقریروں کے ذریعہ بھیڑ کو مخاطب کیاجائے تو ایسے عمل کاکوئی مطلوب نتیجہ ہر گز نکلنے والانہیں۔ اس قانون کے مطابق، کسی قوم کی خارجی حالت ہمیشہ اس کی داخلی حالت کانتیجہ ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں کسی قوم کے زوال کے وقت اس کی اصلاح کاآغاز داخلی محنت سے ہوگا، نہ کہ خارجی کارروائیوں سے ۔