روزہ اسپرٹ
اسلام میں پانچ اعمال ستون (pillars) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں: بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ:شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 8؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 16)۔ یعنی،آپ نے کہا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا اور حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔
جس طرح عمارت کچھ ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے، اسی طرح اسلامی زندگی پانچ ارکان پر قائم ہوتی ہے۔ یہ پانچ ارکان بظاہر پانچ ریچولس (rituals)ہیں۔ یعنی کلمۂ ایمان کے الفاظ کو زبان سے بول دینا، صلاۃ کے متعین طریقہ کو دہرا دینا، زکوٰۃ کی مقررہ رقم نکالنا، حج کے مراسم کو ادا کرنا، رمضان کے صوم کا اہتمام کرنا۔ مگر اس کا مطلب شکل برائے شکل نہیں، بلکہ شکل برائے اسپرٹ ہے۔ یعنی ان احکام کی ایک روحانی حقیقت ہے اور ان کی وہی ادائیگی معتبر ہے جس میں اس کی حقیقت پائی جائے۔
یہ ارکان اسی وقت ارکان اسلام ہیں جب کہ ان کو اس طرح اختیار کیا جائے کہ ان کی شکل کے ساتھ ان کی معنوی روح بھی آدمی کے اندر پائی جا رہی ہو۔ روح کو جدا کرنے کے بعد شکل کا موجود ہونا ایسا ہی ہے جیسے اس کا موجود نہ ہونا۔اسلام کا ایک رکن صوم( روزہ) ہے۔صوم کی ظاہری صورت رمضان کے مہینہ کا روزہ ہے، یعنی صبح سے شام تک بھوکا اور پیاسا رہنا، لیکن اس کی معنوی اسپرٹ صبر اور تواضع ہے۔ صبر و تواضع بلاشبہ زندگی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی تمام کامیابیوں کا راز ہے۔ حقیقی روزہ صبر اور تواضع کی صفت پیدا کرتا ہے، اور انسان کے اندر اعلی انسانی کردار پیدا کرتا ہے۔
حدیث میں ہے :وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ (صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر 1887)۔ یعنی رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے۔ ’’صبر کا مہینہ‘‘ کا مطلب ہے — مشقت کا مہینہ۔ رمضان کے مہینے میں آدمی کو اپنے معمولات کو توڑنا پڑتا ہے۔ اس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ پیاس کے باوجود پانی نہ پئے، اور بھوک کے باوجود کھانا نہ کھائے، وہ اپنی خواہشات (desires) کو کنٹرول میں رکھے۔ رمضان کو اگر درست طور پر گزارا جائے توپورا کا پورا مہینہ مشقتوں کا مہینہ بن جائے گا۔
سچے روزہ دار کے لیے رمضان کا مہینہ مسلسل صبر کا مہینہ ہے، دن کے اوقات میں بھی اور رات کے اوقات میں بھی۔ جو آدمی پوری اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھے، اس کے اندر یہ عمومی مزاج پیدا ہو جائے گا کہ وہ ناخوش گوار باتوں کو برداشت کرے، وہ لوگوں کی قابل شکایت باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے زندگی گزارے، وہ متواضع انسان، یعنی مین کٹ ٹو سائز (man cut to size) بن جائے گا۔اس کے برعکس، جو لوگ صوم کو محض ان کی شکل کے اعتبار سے اختیار کریں، وہ مخصوص شکل کی حد تک تو اس کو اپنائیں گے۔ مگر اس شکل کے باہر ان کی زندگی اس سے بالکل آزاد اور غیر متعلق ہوگی۔
مثلاً رمضان کا مہینہ آئے گا تو ایسے لوگ کسی سیزنل رسم (seasonal ceremony) کی طرح ایک مہینے کا روزہ رکھ لیں گے۔ مگر وہ صبر کے موقع پر صبر نہیں کریں گے۔ وہ ہر اشتعال دلانے والے موقع پر مشتعل ہو کر ٹکراؤ کا راستہ اختیار کریں گے۔ اور اس کی وجہ یہ ہوگی کہ ظاہری طور پر انھوں نے روزہ تو رکھ لیا، مگر ان کے دل و دماغ میں روزہ کی اسپرٹ پیدا نہ ہو سکی۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو بار بار منفی تجربات پیش آتے ہیں۔ ایسی حالت میں مثبت نفسیات کے ساتھ دنیا میں رہنا صرف اُس انسان کے لیے ممکن ہے جو صبر کے ساتھ دنیا میں رہنے کے لیے تیار ہو۔ روزہ اِسی صبر کی تربیت ہے۔ سچا روزہ آدمی کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ ناخوش گوار واقعات سے غیرمتاثر رہ کر زندگی گزارے، وہ منفی تجربات کے باوجود مثبت سوچ (positive thinking)پر قائم رہے۔ صبر آدمی کو حوصلہ مند بناتا ہے۔ اور روزہ اِسی قسم کی حوصلہ مندانہ زندگی کی تربیت ہے۔
جو آدمی اسلام کے پانچ ارکان کو اختیار کر لے وہ مومن و مسلم ہو گیا۔ وہ اس کا مستحق ہو گیا کہ دنیا میں اس کو اللہ کی رحمت ملے اور آخرت میں اس کو جنت میں داخل کیا جائے۔ مگر اسلام کے پانچ ارکان اپنی شکل اور روح دونوں کے اعتبار سے مطلوب ہیں۔ ان کی ادائیگی پر جن انعامات کا وعدہ ہے اس کا تعلق کامل ادائیگی پر ہے، نہ کہ ادھوری ادائیگی پر۔