دعوت یعنی انسانی خیر خواہی

مئی 2004  میں عرب امارات کے لیے میرا ایک سفر ہوا تھا۔وہاں میں نے دبئی کا انگریزی اخبار، خلیج ٹائمس کا شمارہ6 مئی2004 دیکھا۔ اس میں ایک خبر تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ شارجہ کی حکومت ایسے اقدامات کررہی ہے جو ماحولیات کو بگڑنے سے بچانے والے ہوں۔ اس خبر کا عنوان یہ تھا— شارجہ ایکو فرینڈلی پروجکٹ چلانے والا ہے:

Sharjah to launch eco-friendly project

آج کل ایکو فرینڈلی منصوبوں کا بہت چرچا ہے۔ خود مسلم ملکوں میں بھی اس کی کافی دھوم ہے۔ میں نے سوچا کہ منصوبۂ تخلیق کی نسبت دیکھا جائے توایک اور نہایت ضروری کام یہ ہے کہ مدعو فرینڈلی منصوبے جاری کیے جائیں۔ مگر ساری دنیا میں مسلمان اس قسم کی بات سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ مسلمانوں نے برعکس طور پرایسے ہنگامے جاری کر رکھے ہیں جو مدعو کو دشمن بنائے ہوئے ہیں۔ مگر مدعو کو دوست بنانے کی شعوری کوشش پوری مسلم دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔حقیقت یہ ہے کہ مدعو فرینڈلی منصوبہ نہ چلانے کی صورت میں یہ شدید تر اندیشہ موجود ہے کہ ان کی آخرت خطرے میں پڑ جائے۔

اسلامک ورک حقیقۃً وہ ہے جو دعوہ ورک ہو۔ یعنی انسانوں کو خداکے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا۔  دعوہ ورک کوئی سادہ چیز نہیں۔دعوت دراصل انسان سےمحبت اور خیر خواہی کا اظہار ہے۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں سے نفرت کرتے ہیں، وہ ان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ اس قابل ہی نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے درمیان دعوت کا کام کرسکیں۔

 دعوہ ورک کے لیے کچھ لازمی شرطیں ہیں۔ اس میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو کا مکمل طور پر خیر خواہ ہو۔ وہ یک طرفہ طور پر مدعو کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرے۔ داعی اور مدعو کا رشتہ اسی قسم کا ایک رشتہ ہے جیسا کہ تاجر اور کسٹمرکا ہوتاہے۔ ہر تاجر جانتا ہے کہ اس کو اپنے کسٹمر کے ساتھ آخری حدتک خیر خواہی کا معاملہ کرناہے۔ داعی کا فارمولا تاجر کی طرح یہ ہونا چاہیے:

We are always Mad‘u friendly

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom