قوم کی ترقی
موجودہ دنیا کی زندگی خالق کی طرف سے دی ہوئی فطری آزادی پر قائم ہے۔ ہر انسان خالق کی طرف سے آزاد پیدا کیا جاتا ہے، اور وہ دنیا میں جو زندگی گزارتا ہے، وہ سب آزادی کے فطری اصول پر مبنی ہوتی ہے۔یہاں ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی ہے، وہ چاہے مصلح بن کر رہے یا مفسد بن کررہے۔ آزادی كے غلط استعمال کی بنا پر دنیا میں کبھی معیاری حالات نہیں ہوسكتے۔ ہمیشہ ایسے واقعات پیش آتے رهيں گے ، جو کچھ لوگوں کے لیے ناخوشگوار ثابت ہوں، اور کچھ لوگوں کے لیے ایسے ثابت ہوں ، جن کو وہ ظلم کہہ کر شکایت کلچر میں مبتلا ہوجائیں۔
مگر یہ صرف انسان کی آزادی کی بات نہیں ہے۔ بلکہ یہ انسان کی ترقی کے لیے خالق کا مقرر کردہ کورس ہے۔ انھیں واقعات کی بنا پر دنیا میں جدو جہد اور چیلنج کا ماحول قائم ہوتا ہے۔ اس ماحول کی بنا پر انسان کی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔ انسان کے ذہن کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ ان غیر معمولی حالات میں انسان ایسے کارنامے انجام دیتا ہے، جن کو وہ معمول کے حالات میں انجام نہیں دے سکتا تھا۔
یہ خالق کی منصوبہ بندی (planning) کا معاملہ ہے۔ یہ سب جو ہوتا ہے، وہ خود خالق کے بنائے ہوئے نظام کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ کسی کے ظلم کی بنا پر۔ اسی لیے ایسے واقعات ہر ایک کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ حتی کے پیغمبروں اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بھی۔
اس طرح کے واقعات کو قرآن میں مصیبت کہا گیا ہے ( 2:156)۔مذكوره آيت كے مطابق، ناخوشگوار واقعات کے مقابلے میں فطری رسپانس یہ ہے کہ لوگ اس پر صبر کرتے ہوئے، نئے نئے راستے تلاش کریں۔ وہ نئے نئے واقعے دریافت کرکے ان کو اویل کرنے کی منصوبہ بندی کریں۔ ایسے واقعات انسان کی ترقی کے لیے ہوتے ہیں، نہ کہ ان کی دشمنی کے لیے۔کسی مفکر نے درست طور پر کہا ہے کہ یہ زندگی کی مشکلیں ہیں، جو انسان کو انسان بناتی ہیں:
It is not ease, but effort, not facility, but difficulty that makes men. (Samuel Smiles)