حکمت اور شکر

قرآن کی سورہ لقمان کی ایک آیت یہ ہے: وَلَقَدْ اٰتَيْنَا لُقْمٰنَ الْحِكْمَةَ اَنِ اشْكُرْ لِلّٰهِ ۭ وَمَنْ يَّشْكُرْ فَاِنَّمَا يَشْكُرُ لِنَفْسِهٖ ۚ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِيٌّ حَمِيْدٌ  (31:12)۔ یعنی، اور ہم نے لقمان کو حکمت عطا فرمائی کہ اللہ کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرے گا تو وہ اپنے ہی لیے شکر کرے گا اور جو ناشکری کرے گا تو اللہ بےنیاز ہے، خوبیوں والا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ شکر سے پہلے حکمت ضروری ہے۔ شکر بلاشبہ سب سے بڑی عبادت ہے، لیکن صاحبِ شکر بننے سے پہلے ضروری ہے کہ آدمی صاحبِ حکمت بن چکا ہو۔ شکر اگر شکر ہے تو حکمت پری شکر (pre-shukr) کی حیثیت رکھتی ہے۔

شکر کی نسبت سے حکمت (wisdom) کی اہمیت یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے تحت زندگی میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ یہاں ناشکری کے اسباب موجود رہتے ہیں۔ کوئی انسانی معاشرہ کبھی شکایت، منفی سوچ اور ناخوشگوار تجربے سے خالی نہیں ہوسکتا۔ اس قسم کے حالات انسان کو نہایت آسانی سے ناشکری کی نفسیات میں مبتلا کردیتے ہیں۔ اس کا دماغ نفرت اور شکایت کے خیالات سے بھر جاتا ہے۔ ایسی حالت میں شکر کی نفسیات میں جینے کے لیے اس چیز کی ضرورت ہوتی ہے، جس کو قرآن میں حکمت کہا گیا ہے۔ حکمت آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ منفی حالات کے باوجود مثبت انداز میں سوچ سکے۔ شکایت کے اسباب کے باوجود وہ شکایت کا ذہن اپنے اندر نہ پیدا ہونے دے۔ دوسروں کی طرف سے اشتعال انگیزی کے باوجود وہ اپنے آپ کو مشتعل ہونے سے بچائے۔ ناانصافی کا تجربہ ہونے کے باوجود وہ ناانصافی اور حق تلفی سے اوپر اٹھ کرسوچے۔

اسی قسم کی اعلیٰ سوچ کا نام حکمت ہے۔ جو لوگ اپنے اندر اس قسم کی اعلیٰ سوچ پیدا کریں، انھیں کے لیے ایسا ممکن ہے کہ ان کے اندر حقیقی معنوں میں شکر کے جذبات پرورش پائیں۔ شکر کے لیے ایک تیار ذہن (prepared mind) درکار ہے۔ تیار ذہن کے بغیر شکر کی عبادت ممکن نہیں۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom