ایک رجل سعید کا انتقال

 معروف دینی ادارہ جامعہ دارالسلام عمرآباد (تامل ناڈو) کے جنرل سکریٹری مولانا کاکا سعید احمد صاحب عمری (پیدائش 1936) کا 11 مئی 2024 کو انتقال ہو گیا۔ آپ کا تعلق ساؤتھ انڈیا کےایک تجارتی خاندان سے تھا، آپ کے دادا کاکا محمد عمر (وفات 1927) نے جامعہ دارالسلام قائم کیا تھا ۔اس ادارے کے تعلق سے مولانا وحید الدین خاں صاحب نے لکھاہے کہ ’’جنوبی ہند میں ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے جو جامعہ دار السلام، عمر آباد (تمل ناڈو) کے نام سے مشہور ہے۔ وہ ابتدائی طورپر 1924 میں قائم ہوا اور اب وہ ایک بڑا تعلیمی مرکز بن چکا ہے۔ وہ انڈیا کے چند بڑے اسلامی مدارس میں سے ایک ہے۔ اِس ادارے کی دعوت پر جنوبی ہند کا سفر ہوا ۔‘‘  (ماہنامہ الرسالہ، اکتوبر 2010)

مولانا کاکا سعید صاحب نے اسی ادارے سےاپنی دینی تعلیم مکمل کی ۔پھر وہ اپنے بھائی کاکامحمد عمر ثانی کی وفات (1988) کے بعد جامعہ کے جنرل سکریٹری بنائے گئے۔آپ کے زمانے میں جامعہ کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی۔آپ مسلم پرسنل لا بورڈ کے سینئر نائب صدر اور کئی ملی تنظیموں کے ذمہ دار بھی رہے۔ آپ ملت کے ہر حلقہ اور ہرگروہ میں یکساں طور پر عزت و اعتماد کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ 

محترم سکریٹری صاحب نے اپنے ادارے میں دینی نصاب کے ساتھ عصری نصاب کو بھی شامل کیا تاکہ طلبہ کو دینی بصیرت کے ساتھ زمانے کی بصیرت بھی حاصل ہو۔اسی طرح آپ نےماہنامہ راہِ اعتدال (جاری کردہ1991) کے ذریعے امت میں اختلافات کو پسِ پشت ڈال کرمتحد و متفق رہنے کی ترغیب دی۔جامعہ کے تحت چلنے والے ادارۂ تقابلِ ادیان میں آپ انڈیا کے مشہور و معروف علما کو بلاکر دعوتی و علمی محاضرات کروایا کرتے تھے۔ اسی سلسلے کے تحت آ پ نے مولانا وحید الدین خاں (وفات2021) کوتین دن کے لیے جون 2010 میں جامعہ دارالسلام مدعو کیا تھا۔یہ رودادِ سفر ماہنامہ الرسالہ اکتوبر  2010 کے خصوصی شمارے میں ’’جنوبی ہند کا سفر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکی ہے۔ اِس سے پہلے بھی مولانا وحید الدین خاں صاحب کو جامعہ دارالسلام کی گولڈن جوبلی، اپریل 1977 میں مدعو کیا گیا تھا ۔ جس میں مولانا نے ’’اسلامی انقلاب: تاریخ ِانسانی کے لیے نیا موڑ‘‘ کےعنوان سے ایک علمی و فکری مقالہ پڑھا۔ یہ مقالہ مولانا کی کتاب، ظہورِ اسلام میں شامل ہے۔ 

 محترم سکریٹری صاحب بڑے سادہ مزاج تھے ۔ آپ کی سادہ مزاجی کا ایک واقعہ مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنے سفر عمر آباد کا ایک تجربہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے، ’’( ایک) مجلس کے دوران مولانا کاکا سعید احمد عمری میرے کمرے میں آئے۔ اس وقت وہاں کئی اساتذہ ، دعاۃ ( اورادارۂ تقابلِ ادیان کے طلبا) بیٹھے ہوئے تھے، جو اُن کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ کاکا صاحب نے ان لوگوں کو سختی کے انداز میں کھڑے ہونے سے منع کیا اور کہا کہ آپ لوگ جیسے بیٹھے ہیں، اُسی طرح بیٹھے رہیں، اٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اِس کے بعد کاکا صاحب خاموشی کے ساتھ کمرے میں ایک طرف خالی جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے ۔یہ منظر میں نے صرف جامعہ دار السلام میں دیکھا ‘‘۔ (الرسالہ، اکتوبر 2010)

 راقم الحروف نےانتہائی قریب سےمحترم سکریٹری صاحب کا مشاہدہ کیا ہے۔آپ کی شخصیت کی چندقابلِ نمونہ خصوصیات یہ تھیں : آپ بے حد سادہ مزاج ، اور تکلفات سے خالی تھے، بولڈ فیصلہ لینا (bold decision) ، ہر چھوٹی بڑی نعمت کی قدرکرنا،سنجیدگی ومتانت اور وقت کی بےانتہا پاپندی، وغیرہ ۔آپ نہ صرف اپنی تربیت و تزکیہ کے لیے کوشاں رہتے تھے، بلکہ اپنے ادارے کے افراد کی تربیت کے لیے بھی ہرممکن کوشش کرتے رہتے تھے۔ آپ بہت ہی درد مندی کے ساتھ اس قسم کی باتیں دہرایا کرتے تھے — ربانی انسان بننا ، انسانیت کے لیے خیر خواہ بننا، نارِ جہنم سے خود بھی بچنا اور برادران وطن کو بھی بچانا، وغیرہ۔

 یہ ایک حقیقت ہے کہ دعوت و تبلیغ کے فیلڈ میں میرے آنے کا ایک محرک محترم سکریٹری صاحب تھے۔ جامعہ سے فراغت کے بعد میں روزگار کے لیے قطر چلا گیا ۔ اس دوران جناب سکریٹری صاحب قطر آئے اور دعوت کی اہمیت اور ہندستان میں اس کے لیے ساز گار ماحول کو بیان کیا تو مجھے سمجھ میں آیا کہ دینی تعلیم کا اصل مقصد تو دعوت الی اللہ ہے، چنانچہ میں قطر سے انڈیا واپس آگیا، اور محترم سکریٹری صاحب کی مدد سے اس میدان میں لگ گیا۔

 محترم سکریٹری صاحب نے گزشتہ سال کے تقسیمِ اسناد کے سالانہ اجلاس (5 مارچ 2023) میں اپنے فارغین کو نصیحت کرتے ہوئے جو کچھ کہا تھا ان میں سے چند باتیں یہ ہیں ’’فکری اختلاف کے باوجود دوسروں کو برداشت کیجیے۔ دوسروں سے حسنِ ظن رکھیے۔ اُن کی خدمات اور خوبیوں کا اعتراف کیجیے۔ ہر حال میں دین کی خدمت ہو۔ یہی خلوص کی پہچان ہے۔ حقیقت پسندی کے ساتھ سوچیے تو اِن حالات کے لیے ہم مسلمان بھی ذمے دار ہیں۔ اگر ہم نے اپنے اخلاق و کردار سے اسلام کی درست ترجمانی کی، اور اسلام کا پیغام برادرانِ وطن تک پہنچانے کی کوشش کی تو، ان شاء اللہ، یہ اندھیرا چھٹ سکتا ہے۔ دعوتِ دین سراسر محبت اور ہمدردی کا کام ہے۔ اس درد کے ساتھ ہمیں برادرانِ وطن کو اپنی محبت کا موضوع بنانا ہے۔اپنی صالحیت اور صلاحیت ، دونوں کا معیار بلند کرنے کی فکر کیجیے تبھی آپ زمانے کے ساتھ چل سکیں گے۔‘‘(بحوالہ مولانا محمد رفیع کلوری عمری، مدیر مسئول ماہنامہ راہِ اعتدال، عمرآباد) اس قسم کی نصیحتیں آپ ہمیشہ جامعہ کے فارغین کو کیا کرتے تھے۔

محترم سکریٹری صاحب کی وفات ہمارے لیے یقیناً غم کا باعث ہے مگر اللہ تعالیٰ کے منصوبۂ تخلیق سے کسی کو استثنا حاصل نہیں ، ہر ایک کو لوٹ کر اسی کے پاس جانا ہے۔ تاہم قابلِ اطمینان بات یہ ہے کہ محترم سکریٹری صاحب نے اپنے پیچھے نیک وارثین اور اپنے ادارے کےصالح فارغین کی بڑی تعداد کو چھوڑا ہے۔ پوری امید ہے کہ محترم سکریٹری صاحب کے بعد ان سے فیض یافتہ یہ حضرات اس عربی شعر کے مصداق ثابت ہوں کے: إِذَا ‌مَاتَ مِنَّا سَيِّدٌ ‌قَامَ ‌سَيِّدٌ (جب ہم میں سے ایک سردار وفات پاتا ہے تو دوسرا سردار کھڑا ہوجاتاہے) ۔ وہ محترم سکریٹری صاحب کے بعد بھی ربانیت اور دعوت کے راستے پر قائم رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ محترم سکریٹری صاحب کی مغفرت کرکے جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے گا۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری ،عمرآباد)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom