آئڈیالوجی نہ کہ تلوار

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں دعوت کا کام شروع کیا تو قریش کے لوگوں نے مختلف طریقوں سے آپ کو روکنے کی کوشش کی۔ ان میں ایک واقعہ وہ ہے جو سیرت کی کتابوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ عبد اللہ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ ایک بار قریش کےسردار ابوطالب کے یہاں جمع ہوئے۔ابوطالب کے ذریعہ ان لوگوں نے رسول اللہ سے پوچھا کہ آخر آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں،آپ نےکہا: كَلِمَةٌ وَاحِدَةٌ تُعْطُونِيهَا تَمْلِكُونَ بِهَا الْعَرَبَ، وَتَدِينُ لَكُمْ بِهَا الْعَجَمُ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ417)۔يعني، میں صرف ایک کلمہ کا مطالبہ کرتا ہوں۔ اگر تم اسے مان لو توتم سارے عرب کے مالک بن جاؤ گے اور عجم تمہارے مطیع ہوجائیں گے۔

بعض لوگوں نے رسول اللہ کے اس قول کا مطلب اسلامي حكومت کا قیام نکالا ہے۔ حالانكه اس حديث كا سياست اور حكومت سےكوئي تعلق نهيں۔ اس حديث ميں كلمه كي بات كهي گئي هے، نه كه حكومت كي۔ يهاںكلمه كا مطلب وهي هے جس كو آج كل كي زبان ميںآئڈیا لوجی (ideology)كها جاتا هے۔انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ فوجی طاقت کے مقابلے میں، نظریے کی طاقت زیادہ بڑی ہوتی ہے۔ اسلام کی تاریخ اِس حقیقت کی ایک ممتاز مثال ہے۔ اسلام كو مستحكم کامیابی ہمیشہ آئڈیالوجی کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہے، نہ کہ تلوار یا فوجی طاقت کی بنیاد پر۔

مثال کے طور پرمدینہ کو اسلام کی تاریخ میں مرکزی مقام حاصل ہے۔ مدینہ کے اسلام کا دعوتی مرکز بننے کی وجہ اسلام کی آئڈیالوجی ہے۔ مدینہ کے انصار جب رسول اللہ سے ملے اور آپ کی دعوت کو سنا تو ان کو آپ کی بات پسند آگئی۔ چنانچہ وہ لوگ آپ کے سچےساتھی بن گئے۔ اس طرح مکہ کے بجائے مدینہ اسلامی مشن کا مرکز قرار پایا، اور ساری دنیا میں اسلام کا پیغام مدینہ کے ذریعہ پہنچا۔

اس کے بعد یہ ہوا کہ جب آپ مدینہ آگئے تو مکہ کے لوگوں نےآپ کے خلاف جنگ کا ايكسلسلہ قائم کردیا۔مثلاً،بدر،احداورخندق وغيره۔رسول اللہ نے اس جنگی سلسلے کو روکنے کے لیے حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ قریش سےیک طرفہ طور پر جھک کر دس سالہ ناجنگ معاہدہ کیا تھا۔ اسلامی تاریخ میں اس معاہدہ کو صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس صلح کےدو سال بعد بغیر کسی جنگ کےمکہ پر فتح حاصل ہوئی۔ اس فتح کی جڑ میںاسلام کی آئڈیالوجی تھی۔ابن شہاب زہری تابعی کے مطابق، صلح حدیبیہ سے پہلے آپس کی لڑائی کی وجہ سے مسلم اور غیر مسلم ایک دوسرے سے مل نہیں سکتے تھے۔ اب جب امن قائم ہوا، منافرت اور کشیدگی دور ہوئی تو آپس میں تبادلۂ خیال ہونے لگا۔ اس طرح لوگوں کو اسلام کو سمجھنے کا موقع ملا۔ جس کا اثر یہ ہواکہ صلح حدیبیہ کے بعد دو سالوںمیں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا کہ بعثت سے لے کر اس وقت تک اتنے مسلمان نہیں ہوئے تھے ( الْتَقَوْا ‌فَتَفَاوَضُوا ‌فِي ‌الْحَدِيثِ وَالْمُنَازَعَةِ، فَلَمْ يُكَلِّمْ أَحَدٌ بِالْإِسْلَامِ يَعْقِلُ شَيْئًا إلَّا دَخَلَ فِيهِ، وَلَقَدْ دَخَلَ فِي تِينِكَ السَّنَتَيْنِ مِثْلُ مَنْ كَانَ فِي الْإِسْلَامِ قَبْلَ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرَ)سیرت ابن ہشام، جلد 2، صفحہ 322۔

 اس قسم کا ایک عظیم واقعہ تیرھویں صدی عیسوی میں پیش آیا۔ تاتاری قبائل کے حملے نے عباسی سلطنت کو مغلوب کرلیا تھا۔ یہ غلبہ اتنا شدید تھا کہ مسلمانوں کی فوجی طاقت اس کے مقابلے میں غیرموثر ثابت ہوئی۔ مورخ ابن اثیر نے اس زمانے کے مسلمانوں کے عمومی سوچ کی ترجمانی ان الفاظ میں کی ہے:اگر کوئی یہ بیان کرے کہ تاتاریوں نے شکست کھائی اور قید کر لیےگئے تو اس کی بات پر یقین نہ کرنا، اور اگر کوئی تم سے یہ بیان کرے کہ تاتاریوں نے دوسروں کو قتل کردیا ہے تو یقین کرلینا :مَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ ‌التَّتَرَ ‌انْهَزَمُوا وَأُسِرُوا فَلَا تُصَدِّقُوهُوَإِذَا حُدِّثْتُمْ أَنَّهُمْ قَتَلُوا فَصَدِّقُوهُ( الکامل فی التاریخ، جلد10، صفحہ 353)۔ایسے نازک موقع پر اسلام کی نظریاتی طاقت ابھری۔اور صرف نصف صدی کے اندر یہ واقعہ پیش آیا کہ تاتاری قبائل کی اکثریت نے اسلام قبول کرلیا۔ اسلام کے دشمن، اسلام کے دوست بن گئے۔ اسلام کی اِس نظریاتی طاقت کو فلپ ہٹی(Philip K. Hitti) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی، جہاں اُن کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے:

The religion of Muslims has conquered, where their arms had failed. (History of the Arabs, 1970, p. 488)

حقیقت یہ ہے کہ آئڈیالوجی انسان کے دلوں کو مسخر کرتی ہے، اور جب انسان کا دل مسخر ہو  جائے تو کوئی اور چیز تسخیر کے لیے باقی نہیں رہتی۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom