نیا زمانہ، نئی پلاننگ
اسلام میں عقیدہ مطلق (absolute) ہے، لیکن منہاج (method) ہمیشہ قابل تبدیلی (changeable) ہوتا ہے۔ مثلاً توحید کا تعلق عقیدہ سے ہے۔ اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، لیکن سواری کا تعلق منہاج سے ہے۔ قدیم زمانہ میں حج کا سفر اونٹ کے ذریعہ ہوتا تھا، اب زمانہ کی تبدیلی کی بنا پر حاجی لوگ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں، وغیرہ۔
موجودہ زمانہ، خاص طور پر بیسویں صدی میں اسلامی احیاء یا اسلامی انقلاب کے لیے بہت زیادہ تحریکیں اٹھائی گئیں۔ لیکن سب کی سب اپنے نشانہ کے اعتبار سے ناکام ثابت ہوئیں۔ ا س کا مشترک سبب یہ تھا کہ دنیا میں ہر اعتبار سے ایک نیا دور (new age)آچکا تھا۔ مگر مسلم رہنما نئی تبدیلیوں سے مکمل طور پر بے خبر رہے۔ان رہنماؤں کا مشترک کیس ایک رہنما کے اپنے الفاظ کے مطابق یہ تھا:
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
اصل یہ ہے کہ فرد یا سماج کی ترقی کا راز زمانی تبدیلی کو سمجھنے اور اس کے مطابق پلاننگ کرنے میں چھپا ہوا ہے۔ موجودہ زمانے میں جدید سائنس کے ظہور کے بعد پوری صورتِ حال بالکل بدل گئی۔اس دور میں سب سے پہلے کرنے کا کام یہ تھا کہ نئے زمانے کو دریافت کرکے اس کے مطابق بذریعہ اجتہاد اسلام کی تطبیقِ نو (reapplication) تلاش کی جائے۔ مگر مسلم رہنما ایسا نہ کرسکے۔ یہ رہنما ایسے منہاج کے مطابق اپنی تحریکیں چلاتے رہے، جوزمانی تبدیلی کی بنا پر اب ناقابلِ عمل (obsolete) ہوچکے تھے۔ اس بنا پر ان کے منصوبے بھی عملاً ناقابلِ تطبیق (inapplicable) ہوگئے ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ان تحریکوں نے ملی خدمات کے نام پر کچھ پُرشور ہنگامے تو ضرور جاری کیے، لیکن وہ ملت کے لیے کوئی نتیجہ خیز تعمیری عمل انجام نہ دے سکے۔
مثال کے طور پر بیسویں صدی کے نصف اول کی خلافت تحریک کو لیجیے، جو مسلم رہنماؤں نے نہایت زور و شور کے ساتھ چلائی، لیکن وہ مکمل طور پر بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ترکی کی خلافت جو بشمول ترکی 23 ملکوں میں قائم تھی، اس کا جواز قدیم طرز کے ایمپائر سے حاصل ہوا تھا۔ انیسویں صدی میں یہ سیاسی ماڈل عملاً متروک قرار پا گیا۔ اب اس کی جگہ نیا پولیٹکل ماڈل قائم ہوا، جو نیشن اسٹیٹ (nation state) کے تصور پر قائم تھا۔ اب ساری دنیا میں وطن پر مبنی قومیت (homeland based nationalism) رائج ہے۔ ایسے پولیٹکل ماحول میں خلافت عملاً بے زمین (groundless)ہو چکی ہے۔یہ واقعہ خود عرب ملکوں میں پیش آیا، جو اس وقت خلافت عثمانی کا حصہ تھے۔ 1924 میں اتاترک نے سیاسی خلافت کو نہیں ختم کیا، بلکہ وہ اس سے پہلے نئے سیاسی ماڈل کی بنا پرعملاً ختم ہوچکی تھی۔
زمانہ کی اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے تھا کہ مسلم رہنما اپنی تحریکوں کا نقشہ نئے انداز میں بنائیں، جو زمانے کے تقاضہ کے مطابق ہو۔ مگر انھوں نے ایسی تحریکیں چلائیں جو خلافِ زمانہ حرکت (anachronism) کا مصداق تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم رہنماؤں کی تمام تر کوششوں کے باوجود تحریکِ خلافت اپنا نشانہ حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی۔
اسی طرح ایک اور مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے کچھ رہنماؤں نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرتشدد طریقِ کار (violent activism) کو اختیار کیا، اور ان تحریکوں کو بطور خود جہاد کا نام دے دیا۔ یہ تحریکیں بھی اپنے نشانے کو پانے میں مکمل طور پر ناکام ہوگئیں۔ اس کا سبب یہ تھا کہ دو عالمی جنگوں کے تجربے کے بعد ساری دنیا میں وائلنٹ ایکٹوزم (violent activism) ناقابلِ عمل قرار پاچکا تھا۔ اب جو طریقِ کار جائز طریقہ کی حیثیت سے دنیا میں مقبول ہوا، وہ مبنی بر امن طریقہ (peaceful activism) تھا۔
اقوام متحدہ کا عالمی نظام پر امن طریقِ کار کو جائز طریقِ کار (justified activism)کی حیثیت دیتا تھا، اور اس کے مقابلے میں پر تشدد طریقِ کارکو مکمل طور پر رد کررہا تھا، لیکن مسلم رہنما زمانہ کی اس تبدیلی سے بے خبر ہوکر قدیم روایت کے مطابق پرتشدد طریق کار کے مطابق اپنی تحریکیں چلاتے رہے۔ انھوں نے اس بین اقوامی راز کو نہیں سمجھا کہ کوئی طریقِ کار جہاد کا عنوان دینے سے قابلِ عمل نہیں بنتا، بلکہ یہ ایک سیکولر سبجکٹ ہے جو مروجہ یونیورسل نارم (universal norm) کے تحت تشکیل پاتاہے، اور اسی بنیاد پر اس کو سند جواز ملتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں قومیت (nationhood) کا تصور ایک سیکولر تصور ہے۔ قومیت کا تعین سیکولر نظریات کے تحت متعین ہوتا ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہنماؤں نے اس راز کو نہیں سمجھا۔ انھوں نے خودساختہ ذہن کے تحت قومیت کے تصور کو اسلامائز کرنا شروع کردیا، جو کہ موجودہ زمانے میں پوری طرح ناقابلِ عمل ہوچکا تھا۔
موجودہ زمانے میں قومیت کا تعلق وطن (homeland) سے تھا، مگر مسلم رہنماؤں نے اپنی بے خبری کے تحت مسلمانوں کو یہ بتایا کہ مسلمان کی قومیت اسلام پر مبنی ہونی چاہیے، نہ کہ وطن پر۔ یہ نظریہ بلاشبہ حقیقت پسندی کے خلاف تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے بارے میں ساری دنیا میں یہ تصور بن گیا کہ مسلمان اپنے مذہب کا وفادار ہوتا ہے، وہ اپنے وطن کا وفادار نہیں ہوتا۔ اس کامزید نقصان یہ ہوا کہ مسلمان عملاً ڈبل اسٹینڈرڈ کے خطرے میں مبتلا ہوگئے۔ وہ دنیا کے مختلف ملکوں میں جاتے ہیں، اوربظاہر وہ اس ملک کی شہریت اختیار کرلیتے ہیں۔مگر ان کا مائنڈ سیٹ (mindset) وہی باقی رہتا ہے، جو کہ پہلے تھا۔ اس طرح وہ اپنے کو اس خطرے میں ڈال لیتے ہیں کہ وہ خود تو اپنے کو مومن سمجھیں، لیکن فرشتوں کے ریکارڈ میں ان کو ڈبل اسٹینڈرڈ والی شخصیت لکھا جائے۔
ترقی کا تعلق اس سے نہیں ہے کہ آپ اپنے مذہب سے باخبر ہوں، بلکہ ترقی کا تعلق اس سے ہے کہ آپ زمانے کے تقاضے کو سمجھیں، اور اس کے مطابق اپنے دین اور دنیا کی منصوبہ بندی کریں۔ تبدیل شدہ حالات کو سمجھنا، اور اس کی رعایت کرنا، منصوبہ بندی کو کامیاب کرتا ہے۔ یہ اس وقت ممکن ہے، جب کہ انسان کھلے ذہن کے ساتھ موجوده حالات کو سمجھنے کی کوشش کرے، اور بغیر کسی ریزرویشن کے اسکے مطابق اپنے عمل کی پلاننگ کرے۔ ليكن موجوده دور كے مسلماناس راز کو نه سمجھ سكےکہ يه دور سائنسی دریافتوں کی بنا پر قدیم دور سے بالکل الگ حیثیت اختیارکرچکا ہے۔ اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ جدید تقاضوں کو سمجھیں، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ یہی اس دنیا میں کامیابی کاراز ہے۔