ڈائری 1986

4جون 1986

تبلیغی جماعت کے دو آدمی ملنے کے لیے آئے۔ انہوں نے مولانا عمر پالن پوری کے بارے میں کچھ باتیں بتائیں۔

مولانا عمر پالن پوری تبلیغی جماعت کے خاص مقرر ہیں۔ وہ روزانہ بلا ناغہ تبلیغی مرکز نظام الدین میں تقریر کرتے ہیں۔ مذکورہ حضرات نے بتایاکہ ان کا ایک خاص انداز یہ ہے کہ وہ بالکل سادہ اور عام فہم مثالیں دیتے ہیں۔ مثلاً آج کی تقریر میں وہ یہ بتا رہے تھے کہ دنیا کی چیزیں خدا کے محبوب بندوں کو بھی ملتی ہیں اور خدا کے مبغوض بندوں کو بھی۔ بظاہر ملنے کے اعتبار سے دونوں یکساں نظر آتے ہیں، مگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔ انہوں نے مثال دی کہ طوطے کے پنجرے میں بھی روٹی ڈالی جاتی ہے اور چوہے کے پنجرے میں بھی۔ مگر دونوں میں بہت زیادہ فرق ہے۔چوہے کو روٹی اس کو پکڑنے کے لیے دی جاتی ہے ، جب کہ طوطے کو روٹی اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ اس کے لیے غذا بنے۔

میں نے کہا کہ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے مشن اور تبلیغی جماعت کے مشن میں کیا فرق ہے۔یہ فرق طریقِ اظہار کا ہے، نہ کہ حقیقت کا۔تبلیغ کے لوگوں کا خطاب زیادہ تر عوام سے ہوتا ہے، اس لیے وہ دین کی بات کو بالکل سادہ اور عام فہم انداز میں بیان کرتے ہیں۔ میرا خطاب خواص (تعلیم یافتہ طبقہ) سے ہے۔اس لیے ہم اسی دینی پیغام کو علمی انداز میں اور جدید اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔

5جون 1986

ہرسال رمضان میں کسی رات کو ایسا ہوتا ہے کہ مجھ پر خصوصی کیفیات گزرتی ہیں۔ جن سے مجھے گمان ہوتا ہے کہ غالباً آج ہی شب قدر ہے۔اس سال (رمضان 1306ھ) میرا گمان ہے کہ شب قدر 25 رمضان کی رات کو پڑی۔

آج کی رات مجھے دوسری راتوں سے کم نیند آئی۔ پھر صبح کو فجر کے وقت خاص کیفیت طاری ہوئی اور ایک ایسی دعا نکلی جو اس سے پہلے کبھی نہ نکلی تھی۔میری زبان پر بے اختیارانہ یہ الفاظ جاری ہو گئے:

خدایا ! تیرے بندے سلیمان نے تجھ سے ایسی حکومت مانگی تھی جو کسی اور کو نہ ملی ہو۔ وہ ایک پیغمبر تھے اور اس دعا کے سزاوار تھے۔میں ایک عاجز اور گنہ گار بندہ ہوں۔ میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو میری ایسی مدد کر جو تو نے کسی کی نہ کی ہو۔یہ کہ تو مجھے قیامت کے دن بلا استحقاق بخش دے۔ میری ساری خطاؤں اور کوتاہیوں کے باوجود مجھے جنت میں داخل کر دے۔

فجر کے وقت جب مجھ پر یہ کیفیت گزری، اس وقت میرے ذہن میں کوئی حدیث وغیرہ نہ تھی۔بعد کو مجھے ایک حدیث یاد آئی جو مذکورہ گمان کی بالواسطہ تصدیق کرتی ہے۔

حدیث میں آیا ہے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول! اگر مجھے  لیلۃ القدر مل جائے تو میں کیا کروں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دعا کرو:

’’اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُو تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی(جامع الترمذی،حدیث نمبر 3513)۔ یعنی، اے اللہ !بے شک تو معاف کرنے والا ہے۔ تو معافی کو پسند کرتا ہے۔ پس مجھے معاف کر۔‘‘

اس حدیث سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ شب قدر کی تاریخ اگرچہ نص کے ذریعہ متعین نہیں ہے۔تاہم یہ ممکن ہے کہ کوئی بندۂ خدا اپنے ذاتی احساسات کے تحت اس کا ادراک کر سکے۔دوسری بات یہ کہ اگر اس مبارک لمحات سے کسی کا ربط قائم ہو تو اس پر سب سے زیادہ جو کیفیت طاری ہوگی وہ استفسار کی کیفیت ہے۔ جس کا ایک نمونہ مذکورہ دعا کے الفاظ میں ملتا ہے۔

6جون 1986

دہلی کے زو (Zoo) میں ایک گینڈا تھا، جس کا نام روزی تھا۔30 مئی 1986 کو اس کا انتقال ہو گیا۔ جب کہ اس کی عمر چھ سال تھی۔ اس کا وزن تین ٹن سے زیادہ تھا۔ وہ مادہ گینڈا تھی جو چند سال پہلے چنڈی گڑھ سے لائی گئی تھی تاکہ دو نر گینڈے کے ساتھ رہ سکے۔ وہ حاملہ تھی۔ گینڈے کے یہاں عام طور پر 16 مہینے میں بچہ پیدا ہو تا ہے۔ چنانچہ جولائی 1986 میں اس کے وضع حمل کی مدت پوری ہو رہی تھی۔

روزی کے بارے میں یہ رپورٹ 31 مئی 1986 کے ٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد جو واقعہ گزرا، وہ ٹائمس آف انڈیا ،4 جون 1986 کے الفاظ میں یہ تھا:

"The response to ‘The Times of India’ story on the sick Rosy was phenomenal. The phone was constantly ringing as several animal lovers sought to keep in touch with her progress."

بیمار روزی کے بارے میں ٹائمس آف انڈیا کی خبر کا رسپانس غیر معمولی تھا۔ ٹیلی فون کی گھنٹی مسلسل بجتی رہی کیوں کہ بہت سے جانور سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ہر لمحہ اس کی حالت کو جاننا چاہتے تھے۔

میں نے یہ رپورٹ پڑھی تو میرے ذہن میں سوال آیا کہ کیا وجہ ہے کہ لوگوں کو جانوروں کے ساتھ اتنی ہمدردی ہوتی ہے، مگر یہی ہمدردی ان کو انسانوں کےساتھ نہیں ہوتی۔ اس کاجواب یہ سمجھ میں آیا کہ جانور ہمیشہ اپنے دائرہ میں رہتا ہے، وہ کبھی انسان کو بلا وجہ تکلیف نہیں پہنچاتا۔ جب کہ انسان ہر بار اپنے دائرہ سے باہر آتا ہے اور دوسرے انسانوں کو مختلف طریقہ سے پریشان کرتا رہتا ہے۔

انسان سے محبت کرنے کے لیے وہ دل چاہیے جو دوسرے کی زیادتی کے باوجود اس سے محبت کر سکے۔چونکہ لوگوں کے پاس اس قسم کا بڑا دل نہیں، اس لیے انسان سےمحبت کرنے والے بھی نہیں۔ جانور سے محبت کرنے میں انسان کی بڑائی نہیں چھنتی۔جب کہ انسان سے محبت کرنا اس وقت ممکن ہے، جب کہ ذاتی بڑائی کا جذبہ آدمی اپنے اندر سے نکال چکا ہو۔

8جون 1986

7جون 1986 کے اخبارات میں یہ خبر تھی کہ کنڑا زبان کے مشہور ادیب ڈاکٹر ماستی وینکٹیش آئنگر (Masti Venkatesha Iyengar) کا 95 سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

ڈاکٹر ماستی 6 جون 1891 کو پیدا ہوئے تھے۔دو بارہ عین اسی تاریخ 6جون 1986 کو اس دنیا سے چلے گئے۔ ڈاکٹر ماستی نے جہاں سے اپنی زندگی کا سفر شروع کیا تھا،وہ دوبارہ وہیں پہنچ گئے۔ ہر آدمی اسی طرح پیچھے کی طرف لوٹتا ہے۔ اگرچہ ایسے لوگ بہت کم ہیں جن کی وفات بھی عین اسی تاریخ کو ہو جس تاریخ کو ان کی پیدائش ہوئی تھی۔

9جون 1986

ڈاکٹر محسن عثمانی اور جناب اسلم صاحب (آئی اے ایس) ملنے کے لیے تشریف لائے۔دونوں نے مشترکہ طور پر کہا کہ الرسالہ میں تنقید نہیں ہونی چاہیے۔ صرف مثبت طور پر اپنی بات پیش کرنی چاہیے۔

میں نے کہا کہ تنقید کو برا ماننا سراسر دورِ تنزل کی بات ہے۔ دورِ عروج میں کبھی تنقید کو برا نہیں مانا جاتا تھا۔ صحابہ کرام کے زمانہ میں تنقید کا عام رواج تھا۔ ان لوگوں نے کہا کہ تنقید کا کیا فائدہ ہے؟ میں نے کہا کہ تنقید ہی سے اعلیٰ انسان بنتے ہیں۔ ذہنی بیداری اور شعوری انقلاب کبھی تنقید کے بغیر نہیں آسکتا۔

انہوں نے کہا کہ قرآن میں حکم ہے کہ نبی کا احترام کرو، نبی کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرو۔میں نے کہا کہ نبی کا معاملہ ایک مستثنیٰ معاملہ ہے۔نبی کے اوپر آپ علما کو قیاس نہیں کرسکتے۔ڈاکٹر محسن عثمانی صاحب نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ(المقاصد الحسنۃ للسخاوی،حدیث نمبر 459) ۔ یعنی، میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا کی مانند ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علمائے امت کا بھی اسی طرح احترام ہونا چاہیے، جس طرح انبیا کا کیا جاتا تھا۔

میں نے کہا کہ یہ حدیث علما کے احترام کے بار ے میں نہیں ہے۔ یہ علما کی ذمہ داریوں کے بارے میں ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کے علما وہ کام کریں گے جو بنی اسرائیل کے انبیا کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کے بارے میں آیا ہے کہ ان کی رہنمائی برابر انبیا کرتے تھے:  كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيلَ تَسُوسُهُمُ الأَنْبِيَاءُ (صحیح البخاری،حدیث نمبر 3455)۔ مگر پیغمبر اسلام کے بعد نبوت ختم ہو گئی۔اس لیے یہاں انسانوں کی رہنمائی کے لیے پیغمبر نہیں آئیں گے، بلکہ علما کو وہ کام انجام دینا پڑے گا جس کام کو پہلے انبیا انجام دیتے تھے۔

10 جون 1986

یہ بہت ضروری ہے کہ آدمی جس کام کو لے کر اٹھے، اس کے لیے وہ competent ہو۔ مثلاً مولانا شبلی نعمانی (1857-1914) نے زور و شور کے ساتھ اسلامی تعلیم کا ایشو اٹھایا۔ اس وقت کچھ لوگوں نے جوابی تحریک اٹھائی کہ اسلامی تعلیم مسلم نوجوانوں کو پیچھے لے جائے گی، کیوں کہ اسلام علم کا مخالف ہے۔ اس کی مثال یہ دی گئی کہ حضرت عمر کے زمانہ میں جب اسکندریہ (مصر) فتح ہوا تو انہوں نے عظیم یونانی کتب خانہ کو جلا دیا۔ اس طرح دنیا پچھلے انسانی دماغوں کے ورثہ سےمحروم ہو گئی۔ اس کے جواب میں مولانا شبلی نے زبردست تحقیق کر کے بتایا کہ یہ کتب خانہ اسلامی فتح سے بہت پہلے جلایا جا چکا تھا۔ بعد کو چھٹی صدی ہجری میں ایک عیسائی مؤرخ ابو الفرج ملطی نے یہ کیا کہ عیسائیوں کو اس الزام سے بچانے کے لیے غلط طور پر اس واقعہ کو مسلمانوں سے منسوب کر دیا۔

اسی طرح مولانا شبلی نے اسلامی تاریخ کی عظمت پر کتابیں لکھیں۔ اس وقت زور شور کےسا تھ یہ بات کہی گئی کہ اسلام مساوات کے خلاف ہے اور اس کی ایک مثال جزیہ ہے۔ جو ان لوگوں کے نزدیک غیر مسلم ہونے کا ٹیکس ہے۔ مولانا شبلی نے دوبارہ نہایت تحقیق کےساتھ ایک کتاب لکھی کہ جزیہ غیر مسلم ہونے کا ٹیکس نہیں تھا، بلکہ فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہونے کا معاوضہ تھا۔ شبلی کی ان تحقیقات کے بعد مخالف مغلوب ہو کر رہ گیا۔

اس کے برعکس مثال موجودہ زمانہ میں شاہ بانو بیگم کے مسئلہ کی ہے۔ شاہ بانو کے معاملہ میں موجودہ علما نے زبردست طوفان مچایا۔اور تقریروں اور تحریروں کے ذریعہ اعلان کیا کہ اسلامی شریعت میں مطلقہ کے لیے نفقہ نہیں ہے۔

اب جدید طبقہ کے سامنے دو تصویریں تھیں۔ ایک طرف یہ کہ اسلام ایک مرد کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو کسی بھی وقت طلاق دے کر رخصت کر دے اور اس کے خرچ کی ذمہ داری نہ لے۔ دوسری طرف وہ دیکھ رہا تھا کہ ملک کا کریمنل پروسیجر کوڈ(دفعہ 125) یہ تجویز کرتا ہے کہ مطلقہ کو اس کا سابقہ شوہر 500 روپے ماہانہ کی حد تک گزارہ ادا کرے۔ اس تقابل میں انہیں اسلام بظاہر کم تر نظر آیا اور جدید قانون برتر۔ چنانچہ اس صورت حال کو استعمال کر کے غیر مسلموں نے اور جدت پسند مسلمانوں نے اسلام کو خوب بدنام کیا۔ یہاں دوبارہ ضرورت تھی کہ اس موضوع پر تحقیق کر کے دکھایا جائے کہ اسلام کا قانون ہی زیادہ بہتر ہے۔مگر موجودہ علما میں سے کوئی شخص یہ کام نہ کر سکا۔نتیجہ یہ ہوا کہ شریعت اسلامی کے تحفظ کی تحریک عملاً صرف شریعت اسلامی کو degrade کرنےپر ختم ہو گئی۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom