مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
(حدیث نمبر 146-151)
146
عائشه رضي الله عنہا كهتي هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے ايك كام كيا اور لوگوں كو اس كي ترغیب دي ۔ مگر كچھ لوگوں نے اس کام سے پرهيز كيا۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم كو يه بات معلوم ہوئی تو آپ نے خطبه ديا۔ آپ نے الله كي حمد وثنا بيان كي اور فرمايا: لوگوں كو كيا هوگيا هے كه وه اس چيز سے پرهيز كرتے هيں جو ميں خود كرتا هوں۔ خدا كي قسم ميں الله كو ان سے زياده جانتا هوں اور ان سب سے زياده الله سے ڈرتا هوں۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر6101؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2356)
تشریح:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی رہنمائی کےلیے ایک اعلیٰ نمونہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ کسی بھی زمانے میں اہل ایمان كے لیے كوئي دوسرا معيار اختيار كرنا درست نهيں۔موجودہ مسلمانوں کے ریفرنس میںیہ بات غور کرنے کی ہے کہ’’بطور عقیدہ ہم مانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک کے لیے نمونہ ہیں۔ مگر جب مسلم ملت کے مسائل پر بات ہوتی ہے تو ہر آدمی خود اپنی عقل سے بولنا شروع کر دیتا ہے۔ کوئی ایسا نہیں کرتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام اور آپ کی سیرت میں اس کا جواب تلاش کرے۔ حالانکہ ایسی روش ہمارے ایمان کے مطابق نہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح دورِ اول کے لیے نمونہ تھے، اسی طرح عصر حاضر میں بھی آپ کی زندگی میں ہمارے لیے کامل رہنمائی موجود ہے۔‘‘ (دیکھیے، اسفار ہند،صفحہ 65-66)
147
رافع بن خديج رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم مدينه آئے اور وهاں لوگ كھجور كے درختوں ميں تأبير كا عمل كررهے تھے۔آپ نے پوچھا كه تم لوگ يه كيا كررهے هو۔ انھوں نے كها كه هم اس كی تأبير (pollination)كررهے تھے۔ آپ نے فرمايا كه اگر تم ايسا نه كرو تو شايد تمھارے ليے بهتر هو۔پس لوگوں نے اس عمل كو چھوڑ ديا۔ اس كے بعد پھل كم آئے۔راوي كهتے هيں كه لوگوں نےاس كا ذكر آپ سے كيا۔ آپ نے فرمايا كه ميں ايك انسان هوں۔ جب ميں تم كو تمهارے دين كے بارے میں كوئي حكم دوں تو تم اس كو لے لو۔ اور جب ميں اپني رائے سے كوئي حكم دوں تو ميں ايك انسان هوں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2362)
تشریح: صحيح مسلم كي ايك اور روايت (حدیث نمبر 2363)ميں يه الفاظ هيں:أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمْرِ دُنْيَاكُمْ (تم اپنی دنيا كے بارے ميں زياده جانتے هو) ۔اصل يه هے كه رسول الله صلي الله عليه وسلم كا تعلق مكه سے تھا جهاں اس وقت كھجور كے درخت نهيں هوتے تھے۔ آپ هجرت كركے مدينه آئے تو يهاں كھجور كے باغات تھے اور قاعدے كے مطابق وهاں كے لوگ ان كو زرخيز كرنے كے لیےاپنے هاتھ سےتأبير (pollination) كا عمل كرتے تھے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم كے لیے يه غير مانوس چيز تھي۔ چنانچه آپ نے اس سے منع فرمايا۔ يه بات اصول باغباني كے خلاف تھي۔ اس لیے پيداوار ميں كمي هوگئی۔تأبیر کا معاملہ ایک سیکولر شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔اِسی طرح ٹکنالوجی یا سائنس کی دوسری دریافتیں بھی سیکولر شعبے سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔ اِس طرح کے معاملات میں سائنٹفک ریسرچ کا لحاظ کیا جائے گا۔
’’تم اپنی دنيا كے بارے ميں زياده جانتے هو‘‘ كا مطلب يه هے كه ایک پيغمبر الله كي هدايت کو بتانے كے لیے آتا هے۔ باغباني اور زراعت اور انجينئرنگ جيسے موضوعات كي تعليم كے لیے نهيں آتا۔ پیغمبر اسلام کے بعد اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زندگي كي نجات كا طريقه خدا کے کلام اور میری سنت سے معلوم كرو اور مادي علوم كو اپنے تجربات ومشاهدات اورسائنٹفك ريسرچ كے تابع ركھو۔
148
ابو موسيٰ اشعري رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ميري مثال اور مجھ کو جو (ہدایت ) دے كر الله نے بھيجا هے اس كي مثال اس آدمي كي مانند هے جو ایک قوم کےپاس آيا۔ اور كها كه اے ميري قوم كے لوگو ، ميں نے ايك لشكر كو اپني دونوں آنكھوں سے ديكھا هے۔اور (اس خطرہ کے بارے)ميں كھُلا وارننگ دینے والا هوں۔ پس تم لوگ اپني حفاظت کرو، خود اپني حفاظت کرو۔ چنانچہ قوم كے كچھ لوگوں نے اس كي بات پر یقین کیا۔ وه اندھيرے ميں گھروں سےنکل کر (محفوظ جگہوں پر)چلے گئے ۔ پس انھوں نے اپنے آپ كو بچاليا۔ لیکن كچھ دوسرے لوگوں نے اس كو جھٹلايا۔ اور اپنے گھروں ميں ٹھهرےرهے۔چنانچہ صبح صبح دشمن کے لشكر نے ان پر حملہ کردیا اور انھيں هلاك كر كے ان كو نیست ونابود كر ديا۔ يهي مثال هے اس كي جس نے ميري بات مان كر ميري لائي هوئي شريعت كي پيروي كي اور اس كي جس نے ميري نافرماني كي اور ميری لائی ہوئی شریعت کا انکار کیا۔(متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر7283؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2283)
تشریح:اس حديث ميں زندگي كي حقيقت كو ايك مثال كے ذريعے بتايا گيا هے۔ هر انسان جو زنده هے وه ايك دن مرنے والا هے اور اس كے بعد اس كو اپنے رب كے سامنے حساب وكتاب كے لیے كھڑا هونا هے۔ يه ايك انتهائي سنگين خطره هے جس سے هر انسان دو چار هے۔ پيغمبر اسي لیے آتاهے كه وه اس سنگين خطره سے انسان كو آگاه كرے۔ پيغمبر اسلام كے بعد امتِ مسلمہ كي بھي يهي ذمه داري هے كه وه نسل درنسل هر زمانے كے لوگوں كو اس سنگين مسئله سے آگاه كرتي رهے۔ اس ذمہ داری کی انجام دہی کے بغیر مسلمانوں کا امت ِمحمدی ہونا مشتبہ ہے۔اسي عمل كا نام دعوت الي الله هے۔
149
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: ميري مثال اس شخص کی مانندهے جس نے آگ جلائي۔ جب آگ نے اپنے ارد گرد كا ماحول روشن كرديا۔ تو پروانے اور پتنگے جو آگ ميں گرا كرتے هيں، اس ميں گرنے لگے۔ اور وه ان كو روكنے لگا۔ مگر وه اس پرغالب آرہے هيں اور آگ ميں گرتے جا رہے هيں۔ اسی طرح ميں تم لوگوں کي كمر پكڑ كر تم کو آگ ميں گرنے سے روك رها هوں۔ اور تم لوگ اس ميں گرتے جارهے هو۔ يه بخاري كے الفاظ هيں۔ اور مسلم نے بھي اسي طرح روايت كيا هے۔ مگر اس كے آخر ميں آپ نے فرمايا: ميري اور تمھاري مثال ایسی هے کہ ميں تمھيں كمر سے پكڑ كر آگ سے بچا رها هوں۔ آگ سے نكل آؤ۔مگر تم مجھ پر غالب آئے جاتے هو اور اس ميں گرتے جارہے هو۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر6483؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2284)
تشریح:دنيا كي رونقيں اور لذتيں امتحان كے لیے هيں۔ دعوت اصلاً ایک نظریاتی جدوجہد (ideological struggle) ہے۔ دعوت کا اصل نشانہ فریقِ ثانی کی سوچ کو بدلنا ہوتا ہے۔ پيغمبر يا پيغمبر كي نيابت ميں داعي لوگوں كو اس حقيقت سے آگاه كرتاهے اور كهتا هے كه دنيا كے فريب سے اپنے آپ كو بچاؤ اور آخرت كي تياري كرو۔یعنی خالق کے بتائے ہوئے تخلیقی نقشہ کے مطابق زندگی گزارو۔كامياب وه هے جو اس سے متنبه هو كر آخرت كے لیے عمل كرےاور ناكام وه هے جو اس انتباه كو نظر انداز كركے صرف دنيا ميں مشغول رهے۔
150
ابو موسيٰ اشعري رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: الله نے جس هدايت اورعمل كے ساتھ مجھے بھيجا هے اس كي مثال اس بڑي بارش جيسي هے جو زمين پر برسے۔ پھر زمين كا جو حصه زرخیز تھا اس نے بارش كا پاني قبول كرليا اور پھر اس نے گھاس اور هرا چاره خوب اگايا اور زمين كا جو حصه بنجر تھا اس نے بارش كا پانی روك ليا جس سے الله نے لوگوں كو نفع پهنچايا۔ پھر وه پاني ان كے پينے اور ان كي كھيتي كے كام آيا۔ اور زمین کا ایک حصه ڈھلوان تھا۔ پس اس نے نه تو پاني كو روكا اور نه اس نے گھاس اور چاره اگايا۔ پس يهي اس شخص كي مثال هے جس نے الله كے دين كو سمجھا اور اس كو اس چيز سے نفع پهنچاجس كو لے كر الله نے مجھے بھيجا هے۔ پھر اس نے اس كو جانا اور اس نے اس كي تعليم دي اور (دوسری) مثال اس شخص كي بھي هے جس نے اس كي طرف ديكھنے كے لیے سرنهيں اٹھايا اور الله كي اس هدايت كو قبول نهيں كيا جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر79؛ صحیح مسلم ، حدیث نمبر2282)
تشریح:اس حديث ميں تشبيه كي زبان ميں فطرت كے اس قانون كو بتايا گيا هے جس كوفيض بقدر استعداد كهاجاتاهے۔زمین کو بارش کا فائدہ اس کی زرخیزی کےبقدرملتا ہے۔ یہی معاملہ انسان کا بھی ہے۔ خدا کی ہدایت تمام انسانوں کے لیے عام ہے۔ پيغمبر يا پيغمبر كي نيابت ميں داعي كے ذريعه جب حق كا اعلان كيا جاتاهے تو اگرچه يه اعلان تمام انسانوں تك پهنچتاهے مگر اس كا فائده هر ايك كو اس كي اپني صلاحيتِ قبوليت كے بقدر ملتاهے۔ مگر جو شخص جتنی استعداد کا ثبوت دے گا اتنا ہی فائدہ اس کو حاصل ہوگا۔اور سب سے بڑا فائدہ جو ہدایتِ الٰہی سے ملتا ہے، وہ معرفت ربانی ہے۔
ہر عورت اور مرد کے اندر سچائي كو پانے كا جذبه چھپا ہوا ہے ، سچائی ہر ایک کا سب سے بڑا مطلوب ہے۔ مگرانسان اس دنيا ميں افكاركے جنگل کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔اس بنا پر انسان کے اندرسچائی کو اختیار کرنےکا عمل (process)درست طور پر جاری نہیں هو پاتا۔ ضرورت ہے کہ وه اپنےاندروه فکری استعداد پيدا كرے جس کے ذریعے وہ حق اور غير حق کے فرق کو جانے۔ وہ ناحق کو چھوڑتے ہوئے حق پر اپنی نظر جمائے ركھے۔ یہی وہ طریقہ ہے جو کسی انسان کے لیے سچائي سے فائدہ اٹھانے کا ضامن ہے۔
151
عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے قرآن (سورہ آل عمران)كي يه آيات پڑھيں: وهي هے جس نے تمھارے اوپركتاب اتاري۔ اس ميں بعض آيتيں محكم هيں، وه كتاب كي اصل هيں۔ اور دوسري آيتيں متشابه هيں۔ پس جن كے دلوں ميں ٹيڑھ هے وه متشابه آيتوں كے پيچھے پڑ جاتےهيں فتنه كي تلاش ميں۔ حالاں كه ان كا مطلب الله كے سوا كوئي نهيں جانتا۔ اور جو لوگ پخته علم والے هيں وه كهتے هيں كه هم ان پر ايمان لائے۔ سب همارے رب كي طرف سے هے۔ اور نصيحت وهي لوگ قبول كرتےهيں جو عقل والے هيں(3:7) ۔ حضرت عائشه رضي الله عنها كهتي هيں كه اس کے بعد رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: جب تم ان لوگوں كو ديكھو جو قرآن كي آياتِ متشابهات كے پيچھے پڑگئے هيں تو يهي وه لوگ هيں جن كا الله نے اس آيت ميں ذكر كيا هے۔ پس تم ان سے بچو ۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر4547؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر2665)
تشریح: دين كي جن باتوں كا تعلق هماري معلوم دنيا سےهے، ان كو قرآن ميں محكم يا صراحت كي زبان ميں بيان كيا گيا هے۔ وه اپنے براهِ راست اسلوب كي بنا پر سمجھنے والے كے لیے بالكل واضح هيں۔ اور جن باتوں كا تعلق نا معلوم دنيا سے هے ان كو متشابه يا تمثيل كي زبان ميں بيان كيا گيا هے۔ مثلاً ’’الطَّلاقُ مَرَّتانِ (2:229)۔ یعنی، طلاق دو بار ہے‘‘ایک ایسی آیت ہے جو محکم زبان میں ہے۔ اسی طرح إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً (4:103)۔یعنی، بیشک نماز اہل ایمان پر مقرر وقتوں کے ساتھ فرض ہے۔ یہ بھی محكم اسلوب كي ايك مثال هے۔ان دونوں آیتوں کے مفہوم کو ہم پوری طرح سمجھ سکتے ہیں۔
جہاں تک محکم آیتوں کا تعلق ہے،ایسی آیتیں انسان کے دائرۂ علم سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن کی تفصیلات جاننے کے لیے انسان مکمل تحقیق اور غور و فکر کرسکتا ہے۔مگر جہاں تک متشابہات کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں طالبِ قرآن کو اجمالی مفہوم پر اکتفا کرنا چاہیے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بجا طور پر کہا ہے :أَبْهِمُوا مَا أَبْهَمَ اللَه (الاصل لمحمد بن الحسن، جلد 10، صفحہ 182)۔ یعنی تم اُس چیز کو غیر واضح رہنے دو جس کو اللہ نے غیر واضح رکھا ہے۔
متشابه اسلوب كي ايك مثال یہ آیت ہے: يَداهُ مَبْسُوطَتانِ (5:64)۔یعنی، خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔يه غیب کی بات هے۔ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے، اُس کو جاننا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اس کا مفہوم ہم صرف اجمالی زبان میں سمجھ سکتے ہیں۔ کلی اورحتمی طور پر اُس کا مفہوم اس دنیا میں سمجھا نہیں جاسکتا۔اس قسم کی باتوں كا حقيقي علم صرف الله كو هے۔ انسان كے سامنے ان كو قابل فهم بنانے كے لیے انھيں تشبيه وتمثيل كي زبان ميں بيان كياگياهے۔ ان تمثيلات پر مجمل انداز ميں ایمان ركھنا چاهیے۔ تمثيل كي تفصيلات تلاش كرنا ايك غیر سنجيده فعل هے جو ذهني انتشار كے سوا آدمي كو كهيں اور نهيں پهنچاتا۔ يهي لوگ هيں جن كو قرآن كي مذكوره آيت ميں اصحابِ زيغ كها گيا هے،یعنی سچائی سےبھٹکنے والے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللهَ عز وجل فَرَضَ فَرَائِضَ فَلَا تُضَيِّعُوهَا ، وَحَرَّمَ حُرُمَاتٍ فَلَا تَنْتَهِكُوهَا ، وَحَدَّ حُدُودًا فَلَا تَعْتَدُوهَا ، وَسَكَتَ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ غَيْرِ نِسْيَانٍ فَلَا تَبْحَثُوا عَنْهَا۔(سنن الدارقطنی،حدیث نمبر 4396)یعنی، اللہ تعالیٰ نے کچھ چیزوں کو فرض قرار ديا ہے، تو ان کو ترک نہ کرو،کچھ چیزوں کو حرام قرار دیا تو ان کی خلاف ورزی نہ کرو، اورکچھ حدود قائم کیے تو اس سے آگے نہ بڑھو، اور کچھ چیزوں کے بارے میں اللہ نے خاموشی اختیار کی ہے بھولے بغیر، تو اس کے بارے میں چھان بین نہ کرو۔