جدید ذہن اور اسلام
جدید ذہن (modern mind) کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس کو یہ نظر آتا ہے کہ اسلام کا قدیم ماڈل دورِ جدید کے ماحول سے ٹکرا رہا ہے۔ اس بنا پر اسلام بظاہر دورِ جدید کے لیے غیر موزوں (misfit) ہو گیا ہے۔ مثلاً ان کے خیال کے مطابق، اسلام اپنے قانون کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، جب کہ موجودہ زمانہ کی حکومتیںجمہوریت (government of the people) کے اصول پر چلائی جاتی ہیں۔
اسی طرح ان کا یہ خیال ہے کہ اسلام اظہارِ خیال کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتا ہے، جب کہ جدید ذہن اظہارِ خیال کی آزادی کو غیر مشروط حق سمجھتا ہے۔ اسلام میں اجتماعی زندگی کے لیے جو شرعی قوانین ہیں، ان کو اسلام مقدس اور ناقابلِ تغیر سمجھتا ہے، جب کہ موجودہ زمانے میں کسی قانون کو اس معنی میں مقدس نہیں سمجھا جاتا ۔ اسلام اپنے ماننے والے کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنی الگ شناخت (identity) قائم کریں، جب کہ اس قسم کا نظریہ جدید دور میں ایک اجنبی نظریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام میں قومیت (nationhood) کو مذہب پر مبنی قرار دیا گیا ہے، جب کہ دورِ جدید میں عام طور پر مبنی بر وطن قومیت (homeland-based nationality) کو تسلیم کر لیا گیا ہے، وغیرہ۔
اسلام کے بارے میں اس قسم کے تمام خیالات ایک غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ اوروہ ہے — اسلام اور مسلمانوں میں فرق نہ کرنا۔ وہ تمام چیزیں جن کی صداقت پر موجودہ زمانے میں شک کیا جاتا ہے، وہ سب کی سب مسلم ذہن کی پیداوار ہیں، وہ اسلام کی اصل تعلیم کا حصہ نہیں۔
یہ تمام چیزیں وہ ہیں، جن کو بعد کے زمانے میں مسلمانوں نے بطور خود اضافہ کرکے اسلام کا نام دے دیا ہے۔ بالفاظِ دیگر، یہ تمام چیزیں حاشیۂ کتاب (footnotes)کا حصہ ہیں، نہ کہ متنِ کتاب کا حصہ۔ مثال کے طور پر، شتمِ رسول پر قتل کی سزا بعد کو مسلم فقہا نے وضع کیا، قرآن و سنت میں اس کا کوئی وجود نہیں۔