نتیجه خیز عمل
ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے سوال کیا کہ ہندستانی مسلمانوں کے مسائل کا حل کیا ہے ۔ میں نے کہا کہ صبر ۔انھوں نے کہا کہ صبر کا کیا مطلب ہے ۔ میں نے کہا کہ صبر کا مطلب ہے— مسائل کو نظر انداز کر کے مواقع کو استعمال کرنا۔
انھوں نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ صبر کا حکم قرآن میں ہے۔ مگر صبر کوئی مطلق چیز نہیں۔ جب کھلم کھلااشتعال انگیزی کی جائے۔ جب ہم صاف طور پر دیکھیں کہ مسلمانوں کے اوپر زیادتی کی جا رہی ہے تو اس وقت صبر کیسے کیا جائے گا۔ ایسی حالت میں صبر کرنا تو بزدلی اور شکست خوردگی کے ہم معنی ہو گا۔
میں نے کہا کہ آپ نے صبر کا معیار غلط قائم کیا ہے ۔ صبر کے اختیار یا ترک کا معیار یہ نہیں ہے کہ صبر کرنے میں آپ کو بزدلی یا شکست خوردگی نظر نہ آئے تو آپ صبر کریں اور جب صبر کا طریقہ آپ کو بزدلی اور شکست خوردگی دکھائی دے تو آپ صبر کو چھوڑ دیں ۔ یہ جذباتیت ہے ، جب کہ معیار ہمیشہ اصولی بنیادپر طے کیا جاتا ہے۔صبر کا حقیقی معیار صرف ایک ہے، اور وہ رزلٹ (نتیجہ) ہے۔ صبر کا اصول صرف اس وقت تو ڑا جا سکتا ہے جب کہ اس میں کوئی مثبت نتیجہ ملنے والا نہ ہو ، بصورت دیگر ، صبر کی روش پر قائم رہنا ضروری ہوگا۔خواہ بظاہر وہ بزدلی اور شکست خوردگی کیوں نہ دکھائی دیتا ہو۔
قدیم مکہ میں مسلمانوں کے خلاف ہر طرح کی اشتعال انگیزی جاری تھی ۔ ہر قسم کا ظلم ان پر کیا جا رہا تھا ۔ حضرت عمر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ان ظالموں کے خلاف جہاد کیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمر، ابھی ہم تھوڑے ہیں (يَا عُمَرُ ، إِنَّا قَلِيلٌ)البدایۃ و النہایۃ لابن کثیر، جلد3، صفحہ230۔
اس سے معلوم ہوا کہ مسلمان جب قلیل ہوں اور فریقِ مخالف کثیر ہو تو ظلم کے باوجود ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہیں کیا جائے گا۔ کیوں کہ ایسے اقدام کا کوئی فائدہ نہیں۔ اسلام میں صرف اسی اقدام کی اجازت ہے جو نتیجہ خیز ہو۔ جو اقدام بے نتیجہ ہو کر رہ جائے یا جس اقدام کا الٹا انجام نکلنے والا ہو ، وہ سنتِ رسول کے خلاف ہے ۔ اور جو عمل سنتِ رسول کے خلاف ہو وہ بلاشبہ اللہ کے یہاں غیر مقبول قرار پائے گا۔ نتیجہ کو سامنے رکھ کر اپنا رویہ مقرر کر نا اسلام ہے، اور نتیجہ سے بے پروا ہو کر جوش و جذبہ کے تحت اقدام کرنا نادانی۔