قبولیت ِدعا میں تاخیر
ایک حدیث قدسی ان الفاظ میں آئی ہے: ثَلَاثٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ، الإِمَامُ العَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِينَ يُفْطِرُ، وَدَعْوَةُ المَظْلُومِ يَرْفَعُهَا فَوْقَ الغَمَامِ، وَتُفَتَّحُ لَهَا أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَيَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ: وَعِزَّتِي لَأَنْصُرَنَّكِ وَلَوْ بَعْدَ حِينٍ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2526)۔ یعنی تین آدمی کی دعا رد نہیں کی جاتی ہے۔ انصاف پسند حاکم، روزہ دار جب کہ وہ افطار کرتا ہے، اور مظلوم کی دعا ۔ اللہ ان دعاؤں کوبادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے، اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور اللہ کہتا ہے: میرے عزت کی قسم میں ضرور تمھاری مدد کروں گا، اگرچہ دیر میں ہو۔
اس حدیث میں دعا کی قبولیت کے بارے میں تین الفاظ آئے ہیں— مظلوم ، عادل، اور صائم۔ مگر یہ تین الفاظ محدوديتکے ليے نہیں ہیں، بلکہ وہ علامتی طور پر ہیں، یعنی یہ حدیث حقیقی (genuine) دعا کے بارے میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اللہ کا بندہ اپنے رب سے سچے دل سے ایک دعا کرے، اور اس کی یہ دعا ایک حقیقی دعا ہو، یعنی وہ دعا جو اللہ رب العالمین کے نزدیک قبولیت کا استحقاق رکھتی ہو، تو ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ اگر چہ بندے کو اس کی قبولیت کے لیے انتظار کرنا پڑے۔
انتظار کی شرط اسی لیے ہے کہ اللہ رب العالمین کے اپنے کچھ قوانین ہیں۔ ان قوانین کی رعایت ہی سے دعا قبول کی جاتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ دعا کے بعد وہ اس کی قبولیت کے لیے انتظار کرے۔ انتظار کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس مدت تک وہ صبر کرے، جب کہ اللہ رب العالمین کے قانون کے مطابق، اس کی قبولیت کی شرط پوری ہو۔
قبولیت دعا میں تاخیر خود بندے کی مصلحت کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کوئی بندہ جب دعا کرتا ہے، تو وہ خود اپنے تقاضے کے مطابق دعا کرتاہے، لیکن دعا کی قبولیت کا وقت اللہ رب العالمین کی طرف سے طے کیا جاتا ہے۔ بندے کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ پر امید رہے، وہ مایوسی کے بغیر رحمت الٰہی کے نزول کا انتظار کرے۔