قرآن کی تفسیر
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (3:104)۔ اس آیت کا لفظی ترجمہ یہ ہے:اور چاہیے کہ تم لوگوں میں ایک گروہ ہو، جو دعوت دے بھلائی کی طرف ، اور تاکید کرے نیکی کی، اور منع کرے برائی سے ،اور وہی لوگ کامیاب ہیں ۔
اس ترجمے کے مطابق اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ صرف رکمنڈیشن (recommendation) کے معنی میں ہے، وہ آبلِگیشن (obligation) کے معنی میں نہیں۔ لیکن لوگوں نے اس کی تفسیر اپنے ذوق کے مطابق کی ہے، اور اس کی تفسیر ایسے الفاظ میں کی ہے، جو آیت کے الفاظ کے مطابق نہیں۔ مثلاًصاحب تدبر قرآن نے اس کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے:
’’ ہمارے نزدیک اس آیت سے اس امت کے اندر خلافت کے قیام کا واجب ہونا ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اسی حکم کی تعمیل میں مسلمانوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد پہلا کام جو کیا وہ خلافت علی منہاج النبوت کا قیام تھا اس ادارے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اس امر کی نگرانی کرے کہ مسلمان اعتصام باللہ کے نصب العین سے ہٹنے نہ پائیں۔ اس کے لیے جو طریقے اس کو اختیار کرنے تھے وہ اصولی طور پر تین تھے۔ دعوت الی الخیر، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، انہی تین سے خلافت راشدہ کے دور میں وہ تمام شعبے وجود میں آئے جو ملت کی تمام داخلی و خارجی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کا ذریعہ ہے۔ وَاُولٰىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ کا تعلق صرف اس مخصوص گروہ ہی سے نہیں ہے بلکہ یہ اشارہ پوری امت کی طرف ہے کہ جو امت اعتصام باللہ کے لیے یہ اہتمام کرے گی وہی دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل کرنے والی بنے گی۔‘‘ ( تدبر قرآن، جلد 2، صفحہ 155)
آیت کے الفاظ کے مطابق، جو چیز رضاکارانہ درجے میں مطلوب تھی، اس کو الفاظ بدل کر حکم کے درجے میں مطلوب بنادیا گیا۔ ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جس سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ یہ بات امت کے لیے حکم کے درجے میں ہے۔