نرمی کا سلوک
ایک واقعہ حدیث کی مختلف کتابوں میں آیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صحابہ کے ساتھ کہیں جارہے تھے۔ ساتھ میں عورتیں بھی تھیں۔كچھ عورتوں کو ایک اونٹ پر بٹھایا گیا تھا، جس کو انجشہ نامی ایک صحابی ہانک رہے تھے۔ انھوں نے راستے میں جب اونٹ تیز چلایا ، تو رسول اللہ نے کہا: ارْفُقْ يَا أَنْجَشَةُ، وَيْحَكَ بِالقَوَارِير (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6209) ۔ یعنی اے انجشہ، اللہ تم پر رحم کرے، نرمی کا معاملہ کرو ان قواریر (شیشیوں) کے ساتھ۔ اس حدیث میں قواریر کا لفظ تمثیلی طور پر عورتوں کے بارے میں آیا ہے، یعنی عورتیں شیشے کی مانند ہیں، ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو۔ اگر تم نے سختی کا طریقہ اختیار کیا تو وہ ٹوٹ جائیں گی۔ زندگی میں سختی اور نرمی دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی بات کو فارسی میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: درشتی و نرمی به ہم در بہ است۔
خالق نے مرد کو سختی کے اوصاف کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور عورت کو نرمی کے اوصاف کے ساتھ۔ جیسے گلاب کے درخت كا كانٹا سختی کی مثال ہے، اور اس كا پھول نرمی کی۔ ان میں سے کوئی افضل یا غیر افضل نہیں۔ زندگی میں دونوں کی ضرورت یکساں طور پر ہوتی ہے۔ دانش مند انسان وہ ہے، جو اس حقیقت کو سمجھے، اور نرمی و سختی دونوں زندگی کی تعمیر کے لیے استعمال کرے۔
اس حقیقت کو ایک اور آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ (57:25)۔ یعنی اور ہم نے لوہا اتارا جس میں بڑی قوت ہے، اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کڑی دھات میں بھی فائدہ ہے، اور نرم دھات میں بھی فائدہ ۔یہی معاملہ انسانی مزاج کا ہے۔ دانش مند وہ ہے، جو مزاج کے اس فرق کو جانے، اور ہر صفت کو اس کے صحیح موقعے پر استعمال کرے۔
اس حدیث میں نرمی کی بات کو عورت کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن توسیعی مفہوم میں یہ بات پوری انسانیت کے اعتبار سے ہے۔ نرم مزاجی اہلِ ایمان کی عام صفت ہے(الفرقان، 25:63)۔وہ ہر حال میں مطلوب ہے۔