فہم قرآن
کہا جاتا ہے کہ ’’قرآن مجید ایک مرتب کتاب ہے اور اس کے نظم کو جانے بغیر اس کے معانی تک رسائی نہیں ہو سکتی۔ نظم قرآن فہم قرآن کی بنیاد ہے۔‘‘ یہ جملہ ایک بیان ہے۔ اس قسم کا کوئی بیان ہمیشہ کسی دلیل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اس معاملے میں دلیل صرف ایک چیز ہوسکتی ہے۔ وہ یہ کہ قرآن یا حدیث میں اس مفہوم کا ایک بیان لفظاً موجود ہو۔ اس معاملے میں کسی قسم کی استنباطی دلیل کافی نہیں۔جب تک یہ بات قرآن و سنت میں لفظاً موجود نہ ہو، وہ صرف ایک مفروضہ ہے، جو استنباط کے درجے میں رہے گا، اس کا درجہ ہر گز ایک مدلل بیان کا نہیں ہوسکتا۔
مثلاً ایک شخص اگر یہ کہے کہ قرآن فہمی کے لیے تقویٰ ضروری ہے ، تو اس کے پاس قرآن کی دلیل موجود ہوگی، جس میں یہ کہا گیا ہے : وَاتَّقُوا اللَّهَ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ (2:282)۔ اسی طرح کوئی یہ کہے کہ قرآن فہمی کے لیے تدبر ضروری ہے تو اس کے پاس بھی حوالے کے لیے یہ آیت موجود ہوگی: لِيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ (38:29)۔ اسی طرح قرآن میں ایک مقام پر پہاڑ اور دوسرے فطری اشیاء کا ذکر ہے۔ اس کے بعد یہ فرمایا گیا ہے:إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ (35:28)۔ اس پر تدبر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یونیورس کا علم قرآن فہمی میں مددگار ہے۔ لیکن جو شخص یہ کہے کہ نظم آیات کا علم قرآن فہمی کے لیے کلید کا درجہ رکھتا ہے، تو اس کو اس قسم کی کوئی صریح دلیل دینی چاہیے۔
اس معاملے پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سارے قرآن میں کہیں بھی لفظاً یہ بات موجود نہیں ہے کہ نظم قرآن فہم قرآن کی کلید ہے۔ اس کے برعکس، یہ بات لفظاً موجود ہے کہ تقویٰ کی صفت پیدا کرو تو تم قرآن کو سمجھنے والے بن جاؤگے، یا تدبر کی صفت پیدا کرو تو تم قرآن کو سمجھنے والے بن جاؤگے۔ ایسی حالت میں یہ بات ناقابل فہم ہے کہ کوئی طالب علم کس طرح ایسا کرے کہ قرآن فہمی کا جو اصول قرآن میں لفظاً موجود ہے، اس کو وہ چھوڑدے، اور جو اصول قرآن میں لفظاً موجود نہیں ہے، اس کو وہ اختیار کرے۔