امن اور انصاف
ایک تعلیم یافتہ کشمیری مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے کہا کہ کشمیر میں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ امن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی امن چاہتے ہیں، مگر امن وہ ہے جس کے ساتھ انصاف ملے، جس امن کے ساتھ انصاف شامل نہ ہو وہ توصرف ظالموں کے لیے مفید ہے،نہ کہ مظلوموں کے لیے۔
کچھ لوگ امن مع انصاف (peace with justice) کی وکالت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف امن ایک منفی امن (negative peace) ہے اور امن مع انصاف مثبت امن ۔ یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے، جس میں تمام دنیا کے مسلم رہنما مبتلا ہیں۔ امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) سے کی جاتی ہے۔ یہ بالکل صحیح تعریف ہے۔ نتيجه خيز امن وه هے جو امن برائے امن هو۔ امن کے قیام کا مطلب انصاف کا نظام قائم کرنا نہیں ہے۔ امن صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہر قسم کی تعميري سرگرمیوں کے لیےکار گر فضا حاصل ہوسکے۔ یہی عقل کے مطابق بھی ہے اور یہی اسلام کے مطابق بھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حدیبیہ کا امن معاہدہ کیا تو اس میںآپ کو صرف امن ملا تھا، انصاف نہیں ملا تھا۔ البتہ جب امن کے ذریعہ معتدل حالات پیدا ہوئے تو آپ نے ان حالات سے پیدا ہونے والے مواقع کو استعمال کرکے انصاف سے بھی عظیم کامیابی حاصل کر لی، یعنی مکہ کی فتح۔ انصاف کبھی امن کا جزء نہیں ہوتا، انصاف ہمیشہ امن کے بعد حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرنے سے ملتا ہے، نہ کہ براہ راست طورپر خود امن کے ساتھ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عملی اعتبار سے امن تمام مطلوب چیزوں میں سب سے بڑا مطلوب ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی مثبت یا تعمیری کام کے لیے انسانی آبادی میںامن کا ماحول انتہائی ضروری ہے۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ امن معتدل ماحول میں فکر و عمل کے مواقع فراہم کرتاہے۔ اس سے لوگوں کےدرمیان مثبت سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ امن سے سماج میں تعمیری سرگرمیوں کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس، متشددانہ ماحول سماج میں نفرت، مایوسی اور غیر یقینی صورت حال کی منفی فضا قائم کردیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امن کے ساتھ آپ ابدی طورپر رہ سکتے ہیں مگرتشدد کے ماحول میں آپ ابدی طورپر نہیں رہ سکتے۔