نیکی کا عمل
قرآن کی ایک آیت کا ایک جزء یہ ہے: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ (2:143)۔ یعنی اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے۔ بیشک اللہ لوگوں کے ساتھ شفقت کرنے والا، مہربان ہے۔
اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ بیت المقدس کی جانب منھ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ روایات میں آتا ہے کہ ہجرت کے تقریباً سترہ ماہ بعد قبلہ کی تبدیلی کا حکم آیا تو پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے اپنا قبلہ بیت المقدس کو ترک کرکے کعبہ قرار دے دیا۔ اس وقت کچھ لوگوں کو یہ شک ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ انھوں نے جو نمازیں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے ادا کی ہیں، وہ ضائع ہوجائیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
لیکن اس آیت کا ایک توسیعی مفہوم بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ایک انسان، جو نیکی کا عمل کرتا ہے، اور دین کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔ اگر اس سے کسی وجہ سے کوئی خلافِ دین عمل کا ارتکاب ہو جائے تو اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کی نیت کو دیکھتا ہے، وہ انسان کے ظاہر کو نہیں دیکھتا۔ ایسے انسان کے عمل کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔
ظاہری عمل انسان کی اندرون کی ایک ظاہری تصویر ہے،اصل حقیقت تقویٰ ہے۔چنانچہ اگر کسی وجہ سے ایسے انسان سے کسی غلطی کا ارتکاب ہوجائے، تو اس کو ناامیدی کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ سے بھرپور امید رکھنی چاہیے کہ وہ اس کی نیکی کو برباد نہیں کرے گا۔ اس حقیقت کو قرآن کی دوسری آیت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔