خرت کا معاشرہ
قرآن میں تخلیق کے منصوبے کے بارے میں بتایا گیا ہے: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ (67:2)۔ یعنی جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھے عمل والا ہے۔ اور وہ زبردست ہے، بخشنے والا ہے۔
اللہ رب العالمین نے اپنے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، انسان کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کردیاہے۔ایک، موجودہ دنیا کی زندگی ہے، جس میں انسان آج جی رہا ہے۔ دوسری زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ موجودہ دنیا بطور نرسری وجود میں لائی گئی ہے۔ یعنی وہ دنیا جہاں احسن العمل انسانوں کا انتخاب کیا جارہا ہے(الملک، 67:2)۔ جب احسن العمل انسانوں کے انتخاب کا پراسس مکمل ہوجائے گا تو موجودہ دنیا ختم کردی جائے گی۔ اس کی جگہ ایک اور دنیا وجود میں لائی جائے گی، یعنی آخرت کی دنیا۔ آخرت کی دنیا اصل مقصود ہے، اور وہ ابدی دنیا (eternal world)ہے۔ اس مطلوب دنیا کے لیے احسن العمل انسانوں کے انتخاب کا عمل موجودہ دنیا میں جاری ہے۔
جب موجودہ انسانی تاریخ کا خاتمہ کرکے دوسری ابدی دنیا بسائی جائے گی، یعنی آخرت کی دنیا تو احسن العمل انسانوں کو ان کے عمل کے اعتبار سے چار گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا۔ اس کا ذکر قرآن کی سورہ النساء میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا (4:69)۔ یعنی اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ قرآن کی اِس آیت میں چار ایسے گروہوں کا ذکر ہے جو احسن العمل ہونے کی وجہ سے اللہ کے انعام کے مستحق قرار پائیں گے۔ یہ آیت اوپر مذکور آیت کی تفسیر ہے۔ وہ چار گروہ یہ ہیں — انبیا، صدیقین ، شہدا، اور صالحین۔یہاں شہدا سے مراد جان دینے والے نہیں ہیں، بلکہ لوگوں کے سامنے اللہ كے پيغام کے گواہ بننے والے، یعنی حق کے داعی۔