تبدیلیوں کی حقیقت
بمبئی کو دروازۂ ہند (گیٹ وے آف انڈیا) کہا جاتا ہے۔ اس کی علامت کے طور پر وہاں سمندر کے کنارے اس نام کا ایک گیٹ بنایا گیا ہے۔ یہ اس زمانے کی یادگار ہے جب کہ سمندر کے راستہ سے ہندستان آنے والے لوگ بمبئی کی بندرگاہ پر اتر کر ہندستان میں داخل ہوتے تھے۔ مگر اب سفری حالات بدل چکے ہیں۔ اب ہندستان کا دروازہ بمبئی کی سمندری بندرگاہ نہیں، بلکہ دہلی کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ ہے۔ اب بندرگاہوں کے بجائے ہوائی اڈوں کے ذریعہ ایک ملک کے لوگ دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں۔ تاہم یہ فرق طریقِ داخلہ کا فرق ہے، نہ کہ اصولِ داخلہ کا۔ اس سے دوسرے ملک کے شہریوں کےہندستان میں داخل ہونے کے قوانین پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
یہ ایک مثال ہے، جس سے ان تبدیلیوں کی حقیقت سمجھی جاسکتی ہے، جس کے حوالہ سے مذہب میں تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔بلاشبہ دنیا میں بہت سی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ یہ تبدیلیاں مذہب اور سماج کے درمیان پھر سےمطابقت کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر یہ صرف موجودہ حالات پر مذہب کے اصولوں کے از سرِ نو انطباق (re-application) کا سوال ہے، نہ کہ خود مذہب کو بدل کر نیا مذہب بنانے کا— قدیم زمانہ میں جانور سواری کا کام دیتے تھے۔آج سفر کے لیے مشینی سواریاں استعمال ہوتی ہیں۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک مسافر پورب کی سمت کے ایک مقام پر پہنچنے کے لیے پہلے پورب جاتا تھا، اب وہ اس کے لیے پچھم کی طرف دوڑنے لگے گا۔ (الرسالہ مئی 1978)