حقیقت پسندی
پيغمبر اسلام صلي الله عليه وسلم نے امت كو ايك هدايت ان الفاظ ميں دي تھي:میری تعریف میں مبالغہ نہ کرو (لَا تُطْرُونِي)، جیسا کہ نصاریٰ نے ابن مریم کی تعریف میں مبالغہ کیا۔ میں تو صرف اللہ کا ایک بندہ ہوں، تم صرف یہ کہو کہ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3445)۔
اس هدايت پر غور كيجیے تو معلوم هوتاهے كه اس كا مقصد امت كو ايك عظيم خطره سے بچانا تھا۔ اور وه هےغيرحقيقت پسندانه مزاج ۔ پيغمبر كے بارے ميں قرآن ميں آيا هے كه وه ايك بشر تھے۔ اور مزيد بات يه تھي كه الله نے ان پر وحي نازل كي (18:110)۔ ليكن جب امت اطراء (مبالغہ آمیزی) كا معامله كرے تو اس كا لازمي نتيجه يه هوتا هے كه امت كے اندر غير حقيقت پسندانه مزاج پرورش پاتا هے،یعنی اماني (wishful thinking) کا مزاج۔ مبني بر حقيقت پلاننگ كا مزاج ان كے اندر ختم هوجاتا هے۔
یہ مزاج اس طرح آتا ہے کہ لوگ پہلے اپنے پیغمبر کو شہنشاہ کونین اور فخر موجودات جیسے مبالغہ آمیز القاب دیتے ہیں۔پھر یہ مزاج عام ہوکر دوسرے مفروضہ بڑوں کے لیے بولاجانے لگتا ہے۔ مثلاً امام، اکابر، شیخ العالم ، قائم الزماں اور سید الملت، وغیرہ۔ مگریہ سب غیر حقیقت پسندی یعنی قصیدہ خوانی کی زبان ہے۔ اور قصیدہ خوانی کا مزاج ہمیشہ لوگوں کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) کا عمل روک دیتا ہے۔ لوگ اجتہاد کے بجائے فکری جمود (intellectual stagnation)کا شکارہو جاتے ہیں۔اس لیے پیغمبرِ اسلام نے اس مزاج سے اپنی امت کو شدت کے ساتھ روکا ہے۔