مدعو کا مطالعہ
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ کچھ نوجوانوں پر میں دعوت کا کام کررہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ خدا اور آخرت کے بارے میں ان کے خیالات زیادہ واضح نہیں ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ ان سے ملاقات کروں، اور ان کو خدا اور آخرت کے بارے میں زیادہ موثر انداز میں سمجھاؤں۔ اب بتائیے کہ میرا انداز کیا ہونا چاہیے۔انھوں نے کہا کہ ابھی تک ان سے جو میری بات ہوئی، میرا اندازہ ہے کہ وہ ان کے لیے زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئی۔
میں نے کہا کہ دعوت کا کام کسی سے پوچھ کر نہیں کیا جاتا ہے،بلکہ خود مدعو کا مطالعہ کرکے کیا جاتا ہے۔ آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ ہمدردی کے جذبے کے ساتھ ان سے ملیں،اور پیشگی طور پر کوئی رائے بنائے بغیر مدعو کی شخصیت کو سمجھیں، مدعو کس طرح سوچتا ہے، مدعو کا ذہن کہیں اٹکا ہوا ہےتو وہ کس پوائنٹ پر اٹکا ہوا ہے، مدعو کا ذہن اگر کنڈیشنڈ ذہن (conditioned mind) ہے، تو وہ کنڈیشننگ کیا ہے۔ ان سب باتوں کو جان کر یہ سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مدعو کا کیس کیا ہے، اس کے ذہن میں کس راستے سے داخلہ ممکن ہے۔ ان پہلوؤں کو سمجھنے کے بعد منصوبہ بند انداز میں اس کو اپنا مخاطب بنائیے، اور ان سے خالص آبجیکٹیو (objective) انداز میں بات چیت کیجیے۔ پھر مباحثہ یا ڈیبیٹ کے انداز سے مکمل طور پر پرہیز کرتے ہوئے خالص ناصحانہ انداز میں ان کے سامنے اپنی بات رکھی جائے۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ خود بات کرنے سے پہلے آپ کو چاہیے کہ آپ اسلامی لٹریچر ان کو پڑھنے کے لیے دیں۔ اگر انھوں نے اسلامی لٹریچر کو پڑھ لیا تو ان سے دعوتی گفتگو کرنا آسان ہوجائے گا۔دعوتی گفتگو کے لیے قرآن کی ایک آیت رہنما آیت کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اچھے طریقہ سےبات چیت کرو (16:125) ۔ اور دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (41:34)۔