مقصدِ زندگي
قرآن كي ايك آيت بتاتي هے كه انسان اور جن كو اس ليے پيدا كيا گيا كه وه الله كي عبادت كريں (52:56) ۔ غور كرنے سے معلوم هوتا هے كه يهاں وہ عبادت مراد هے جس كو مبني بر معرفت عبادت كهه سكتے هيں۔فضیل بن عیاض (وفات 187ھ) کا قول ہےکہ مومن کا کلام حکمت ہوتا ہے، اس کی خاموشی غور وفکر ہوتی ہے، اور اس کا دیکھنا عبرت کے لیےہوتا ہے۔ اگر تم ایسے ہو تو تم برابر عبادت کی حالت میں ہو(كَلَامُ الْمُؤْمِنِ حِكَمٌ وَصَمْتُهُ تَفَكُّرٌ، وَنَظَرُهُ عِبْرَةٌ إِذَا كُنْتَ كَذَلِكَ لَمْ تَزَلْ فِي الْعِبَادَة)۔ پھر اس کے بعدانھوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ، وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ(52:56)۔ یعنی، میں نے جن اور انسان کو صرف اسی لیے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں۔(العظمۃ لابی الشیخ الاصفہانی،جلد1،صفحہ 304)
معرفت يه هے كه انسان تدبر و تفکر کرکےحقيقتِ حيات كو دريافت كرے۔ وه اس حقيقت كو دريافت كے درجه ميں جانے كه اس دنيا ميں ايك طرف الله رب العالمين هے اور دوسري طرف انسان هے۔ الله رب العالمين هر اعتبار سے كامل هے۔ وه خلّاق هے، وه علاّم هے، وه رزّاق هے۔ اس كے برعكس، انسان هر اعتبار سے محتاج هے۔ اس كي پوري زندگي عطيه هے۔ وه دينے سے پاتا هے، نه دياجائے تو اس كو كچھ نهيں ملے گا۔ انسان كے ليے معرفت يه هے كه وه قادر مطلق (all-powerful) خالق کو دريافت كرے۔ يه شعوري دريافت آدمي كو اس قابل بنائے گي كه وه قادرِ مطلق خدا كے مقابله ميں اپنےكو عاجز مطلق (all-powerless) ہونے كي دوسری انتہا(extent)پر ركھے۔ يهي انسان كا كمال هے۔
جب كوئي انسان دريافت كے اس درجه تك پهنچتا هے تو اس كے اندر فطري طور پر ايك نئي شخصيت ايمرج (emerge) كرتي هے۔ وه اس قابل هوجاتا هے كه اس كے اندر ايك نئي رباني پرسنالٹي كو ڈيولپ كرے۔ يهي ترقي يافته انسان (developed man) آخرت ميں احسن العمل انسان كا درجه پائے۔ وه جنت كے حسن رفاقت والے معاشره (النساء، 4:69) ميں تاريخ كے منتخب انسانوں كے ساتھ ابدي طور پر رهے۔