میں غلطی پر تھا
’’ میں غلطی پر تھا(I was wrong)‘‘کہناکوئی سادہ بات نہیں۔ غلطی کا اعتراف اصلاح کا آغاز ہے۔ اگر آپ کوئی غلطی کریں تو اس کے بعد آپ کو سب سے پہلے یہ بولنا پڑے گا کہ ’’میں غلطی پر تھا،اب میں اس سے رجوع کرتا ہوں‘‘۔ اعلان کے بغیر صرف اپنے عمل کو بدل لینا یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ صرف غلطی کا احساس کافی نہیں ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بولیں کہ میں غلطی پر تھا۔
اگر اپنی غلطی کا اعتراف بول کر کریں تو آپ کے اندر ایک اصلاح کا پراسس جاری ہو جائے گا، اور اگر ایسا نہ کریں تو آپ بدستور جہاں تھے، وہیں باقی رہیں گے۔ غلطی کا اعلان دراصل اپني اصلاح کا آغاز ہےبشرطيكه آپ اس معاملے میں پوری طرح سنجیدہ ہوں۔یعنی آپ صرف لپ سروس کے طور پر اپنی غلطی کا اعلان کرتے رہیں، لیکن اس کے مطابق، عمل کا آغاز نہ کریں تو ایسے قول بلا فعل کا کوئی فائدہ نہیں۔هر اصلاح كے ليے سنجيدگي شرط هے۔
انسانی زندگی میں کسی بڑے انقلاب کا آغاز اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان کے اندر کوئی بریک تھرو (breakthrough) کا واقعہ پیش آئے۔ کوئی ایسا واقعہ جو انسان کے اندر وہ نفسیاتی بھونچال پیدا کرے جس کو برین اسٹارمنگ (brainstorming)کہا جاتاہے۔ ایسا واقعہ جو انسان کی پوری شخصیت کو ہلادے۔
اصل یہ ہے کہ عام حالت میں انسان کے ذہن کی تمام کھڑکیاں بند رہتی ہیں۔ اس بنا پر اس کی تمام صلاحیتیں بالقوۃ (potential)حالت میں پڑی رہتی ہیں، ان کو بالفعل (actual)بنانے کے لیے ایک انقلابی حرکت درکار ہے۔ اس انقلابی حرکت کا نقطہ آغاز صرف ایک ہے، اور وہ ہے اعترافِ خطا۔ یعنی یہ کہہ سکنے کی ہمت کہ میں غلطی پر تھا:
"I was wrong."
یہ اعترافِ خطا جتنا زیادہ شدید ہوگا، اتنا ہی زیادہ بڑا نقلاب آدمی کی شخصیت میں آئے گا۔ اس اعترافِ خطا کے اعلی درجہ کو قرآن میں توبۂ نصوح (66:8) کہا گیا ہے۔