سب سے بڑا
نماز كے وقت موذن اونچائي پر كھڑا هو كر بلند آواز سے پكارتا هے: الله اكبر۔ يعني الله سب سے بڑا هے۔ اذان اور نماز دونوں ملا کر دیکھا جائے تو پانچ وقت کی نمازوں میں اللہ اکبر کا کلمہ روزانہ تقریباً تین سو بار دہرایا جاتا ہے۔يه کائنات کی سب سے بڑي سچائي كا اعلان هے۔ يه وه پكار هے جو سچائي كي دريافت پر انسان كي پوري شخصيت كي ترجمان بن كر آدمي كے دل سے نكل پڑي هے۔اِس سے معلوم ہوا کہ دینِ اسلام میں سب سے زیادہ اہمیت اِس بات کی ہے کہ ایک انسان، ایمان والا بن کر اللہ کی عظمت کو دریافت کرے۔ اللہ رب العالمین کی عظمت اس کے شعور کا سب سے زیادہ اہم حصہ بن جائے۔
اصل يه هے كه انسان كے اندر ايك داخلي فطرت(inner core)هے جس پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے(الروم،30:30)۔ جب انسان كا شعور سچائی کی طلب میں فطرت كے اس داخلي گوشه (inner core) تك پهنچ جائے كه اس كي اندرونی فطرت آخري حد تك جاگ اٹھے تو اسي كا نام معرفت هے۔ الله كي معرفت انسان كي شخصيت كي بيداري كا وه درجه هے جب كه اس كي شخصيت اس طرح جاگ اٹھے كه اس كا كوئي گوشه جاگنے سے بچا هوا نه هو۔
كسي انسان كي شخصيت ميں جب اس قسم كا انقلاب آتا هے تو وه ايك نياانسان بن جاتا هے۔ اس كا سول كنسرن (sole concern)صرف الله بن جاتا هے۔ اس كي ساري وفاداري ايك الله كے ليے هوجاتي هے۔ الله اس كي طلب كا مركز بن جاتا هے۔
اس كي زبان سے ايسے الفاظ نكلنے لگتے هيں جو اس سے پهلے نهيں نكلے تھے۔اس كو محسوس هوتا هے جيسے كه الله اس كا سب كچھ بن گيا هے، يه انساني دريافت كا اعليٰ ترين مقام هے۔ دريافت كي اس سطح پر پهنچ كر آدمي كے دل سے جو دعائيں نكلتي هيں اس كي ايك مثال قرآن ميں آسيه بنت مُزاحم كي دعا هے۔ جب فرعون اس كو قتل كرنے كے ليے تلوار لے كر كھڑا هوگيا تو اس وقت آسيه كي زبان سے دعا كے جو الفاظ نكلے اس كا ذكر قرآن ميں ان الفاظ ميں آيا هے: رَبِّ ابْنِ لِي عِندَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ (66:11)۔ اے ميرے رب ميرے ليے ايك گھر بنا دے اپنے پاس جنت ميں۔ يه دعا الله كي گهري دريافت سے نكلي هوئي دعا هے۔