ڈائری 1986

11 جون 1986

ہندوستان کے دو عالم پاکستان گئے تھے۔وہاں وہ تقریباً ڈیڑھ ماہ رہ کر واپس آئے ہیں۔ دہلی میں ان سے میری ملاقات ہوئی۔

گفتگو کے دوران پاکستان کی سیاست کا ذکر ہوا۔ میں نے کہا کہ اخبارات بظاہر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پاکستان میں اگر آزادانہ الیکشن ہوا تو بھٹو پارٹی جیت جائے گی۔ انہوں نے فوراً اس کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ بے نظیر اور بھٹو پارٹی کی مقبولیت دیہاتوں تک محدود ہے۔ اگر الیکشن ہوا تو ممکن ہے وہ دیہاتوں میں جیت جائیں ، مگر شہروں میں یہ لوگ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

پاکستان سے واپس آنے والے صاحبان کا یہ تبصرہ بتاتا ہے کہ کسی ملک میں جانا اس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ آدمی وہاں کے حالات سے گہرائی کےساتھ باخبر ہو جائے۔ مذکورہ دونوں عالم ایک ایسے ملک میں گئے جہاں مذہب کا فرق نہیں، جہاں کی سرکاری زبان اردو ہے۔ وہ وہاں کے کسی بھی شخص سے اپنی مادری زبان میں بات کر سکتے تھے۔ اس کے باوجود وہ پاکستان کی سیاست سے بے خبر رہے۔

میں نے ان صاحبان کو بتایا کہ پاکستان کی آبادی کا 80 فیصد حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے اور 20 فیصد حصہ شہروں میں۔اگرچہ مجھے اس بات سے اتفاق نہیں ہے کہ بھٹو پارٹی شہروں میں کامیاب نہیں ہوگی، تاہم اگر آپ کے بقول وہ صرف وہاں کے دیہاتوں میں کامیاب ہو، تب بھی وہ پاکستان کی 80 فیصد سیٹ پر قبضہ کر لے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ کسی ملک کو جاننے کے لیے وہاں جانا کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کے اندر تجزیاتی صلاحیت ہو۔ وہ مشاہدات سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکے۔

12 جون 1986

آج مالیگاؤں کے کئی آدمی ملنے کے لیے آئے۔ مالیگاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور بیشتر لوگ پاورلوم کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہاں کا ہر آدمی کسی نہ کسی اعتبار سے پاورلوم کی انڈسٹری سے وابستہ ہے۔

گفتگو کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ مالیگاؤں کی تجارت میں مسلمانوں کا کتنا حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر تجارت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے۔اس کے بعد میں نے مزید سوالات شروع کیے تو معلوم ہوا کہ ان کا یہ جملہ واقعہ کے مطابق نہیں کہ مالیگاؤں کا زیادہ تر کاروبار مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہے۔مثلاً انہوں نے بتایا کہ سوت کی سپلائی کا کاروبار زیادہ تر ہندو کے ہاتھ میں ہے۔ اسی طرح تیار شدہ کپڑوں کو مارکیٹ میں لانے کا کام بھی ہندو کرتا ہے۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ پاور لوم کاروبار کے دو سب سے بڑے حصے پر ہندو صاحبان کا قبضہ ہے۔اولاً، ابتدائی مرحلہ میں سوت فراہم کرنا، ثانیاً ، آخری مرحلہ میں تیار شدہ سامان کو بازار میں لانا۔سوت کی سپلائی اور تیار شدہ مال کی مارکیٹنگ یہ دونوں آڑھت والے کام ہیں۔

پورے شہر میں ان کے صرف چند ڈیلر ہوتے ہیں۔جب کہ دوسرے کاموں میں ہزاروں لوگ مشغول رہتے ہیں اور ہر گلی اور ہر سڑک پر اس کی سرگرمیاں دکھائی دیتی ہیں۔اس بنا پر انہوں نے سمجھ لیا کہ مسلمان مالیگاؤں کے زیادہ تر تجارتی حصے پر قابض ہیں۔ حالانکہ جو لوگ بزنس کو سمجھتے ہیں، انہیں معلوم ہے کہ پاور لوم کی انڈسٹری میں زیادہ بڑا حصہ ( lion's share) انہیں لوگوں کو ملتا ہے جو خام مال سپلائی کرتے ہوں اور تیار شدہ مال کی مارکیٹنگ کر رہے ہوں۔آدمی کے اندر تجزیاتی ذہن نہ ہو تو وہ اپنے قدموں کے نیچے کے حالات سے ہمیشہ بے خبر رہے گا۔

13جون 1986

مولانا امیراللہ قاسمی (محبوب نگر) نے بتایا کہ محبوب نگر کے ایک صاحب بنگلہ دیش گئے۔ وہ تبلیغی جماعت کے ساتھ وہاں گئے تھے۔ بنگلہ دیش میں اقتصادی ابتری کا حال دیکھ کر انہوں نے وہاں کے ایک تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا کہ بنگلہ دیش کی آمدنی کا ذریعہ کیا ہے۔ مذکورہ شخص نے اس کا جواب دیا— سائیکلون۔

اس نے کہا کہ بنگلہ دیش میں جب سائیکلون آتا ہے تو ہم اس کی خبریں مبالغہ کے ساتھ شائع کرتے ہیں۔اتنےآدمی مر گئے۔اتنی بستیاں بہہ گئیں۔ اتنے مویشی ہلاک ہو گئے،وغیرہ وغیرہ ۔ان خبروں کے بعد بیرونی ملکوں کا جذبہ ٔ ہمدردی بیدار ہوتا ہے اور وہ سامان اور رقم بھیجنا شروع کر دیتے ہیں۔بس یہی ہے ہمارا ذریعۂ آمدنی۔

کیسی بری تھی تقسیم کی سیاست، جس نے برصغیر ہند میں رہنے والے مسلمانوں کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔انڈیا میں وہ کمزور اقلیت بن گئے۔بنگلہ دیش میں وہ ایک غریب قوم بن گئے اور پاکستان میں وہ ایک ایسی قوم بن گئے جس کو کبھی سیاسی استحکام حاصل نہ ہوا۔

غیر منقسم ہندوستان میں مسلمان واحد سب سے بڑا مسلم گروہ ہوتے۔ منقسم ہندوستان میں وہ تین کمزور گروہ بن کر رہ گئے۔ یہ تھی مسلمانوں کے قائد اعظم کی سیاست۔اگر مسلمانوں نے کہیں قائد اصغر پیدا کیا ہوتا تو ان کا کیا انجام ہوتا؟۔

14جون 1986

نظام الدین میں ہمارے مکان کے پاس ایک دو منزلہ عمارت ہے۔اس کے مالک ایک ہندو مسٹر اپل (Mr. Uppal) ہیں۔وہ اردو جانتے ہیں۔ چنانچہ وہ ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتاب’’اللہ اکبر ‘‘لے گئے تھے۔آج کل وہ اس کو پڑھ رہے ہیں۔

مسٹر اپل کا ٹیلی فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے بڑی عجیب کتاب لکھی ہے۔میں اس کو بہت غور سے پڑھ رہا ہوں اور مجھ کو اس میں بڑا آنند مل رہا ہے۔اسی طرح نظام الدین کے ایک اور ہندو مسٹر آول نے اس کتاب کی غیرمعمولی تعریف کی۔بھوپال کے مسٹر پریم نراین گپتا کا خط آیا ہے۔اس میں انہوں نے اپنے غیر معمولی تاثر کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کتاب کا ترجمہ ہندی زبان میں شائع ہونا چاہیے۔

ہندوستان کے مسلمانوں نے ہندوؤں کے سامنے اسلام پیش کرنے کا وہ طریقہ اختیار کیا، جس کو مناظرہ بازی کہا جاتا ہے۔ یعنی ہندو دھرم کو کنڈم کر کے اسلام کو پیش کرنا۔

’’اللہ اکبر ‘‘ میں اسلام کی تعلیمات کو خالص فطری انداز میں پیش کیاگیا ہے۔ چنانچہ وہ قاری کی فطرت کو اپیل کرتا ہے۔ مناظرہ کے طریقہ سے ہندوؤں کو اسلام سے چڑھ ہوتی تھی۔جب کہ’’اللہ اکبر ‘‘والا طریقہ ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اسلام کے مثبت پیغام کو اس ملک کے ہندوؤں اور دوسری قوموں کے سامنے پیش کر سکیں۔

15جون 1986

محمد اسلم صاحب ہوم منسٹری میں انڈر سکریٹری ہیں۔آج کل وہ نمبر44 پٹودی ہاؤس (نئی دہلی) میں رہتے ہیں۔ ان سے ان کے مکان پر ملاقات ہوئی۔ڈاکٹر محسن عثمانی ندوی بھی ساتھ تھے۔

جناب اسلم صاحب نے بعض علما کی تحریریں دکھائیں، جن میں حجاج بن یوسف کو بہت برا بھلا کہا گیا تھا۔ کیوں کہ اس نے منجنیق کے ذریعے کعبہ پر پتھر پھینکے۔

اس کی حقیقت یہ ہے کہ حجاج بن یوسف عبد الملک کی طرف سے حجاز کا گورنر تھا۔اسی زمانے میں عبد اللہ بن زبیر نے عبد الملک کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دی اور کعبہ کو مرکز بنا کر اپنی مخالفانہ تحریک چلانے لگے۔اس وقت عبداللہ بن زبیر کو زیر کرنے کے لیے حجاج بن یوسف نے جو کارروائیاں کیں انہیں میں سے ایک بیت اللہ پر پتھر پھینکنا ہے۔

یہ عمل اگر غلط ہے تو اتنا ہی غلط سعودی حکومت کا وہ عمل ہے جب کہ 1979 میں شاہ خالدکے زمانہ میں باغیوں کو مغلوب کرنے کے لیے بیت اللہ کے اندر گولیاں چلائی گئیں اور مسلح فوج اس کے اندر داخل ہو گئی۔

ہمارے علما حجاج بن یوسف کے خلاف پرجوش طور پر لکھتے اور بولتے ہیں، مگر مجھے موجودہ زمانہ کا کوئی ایک بھی قابل ذکر عالم معلوم نہیں ہے جس نے شاہ خالد کی اس قسم کی کارروائی کے خلاف کوئی مذمتی بیان دیا ہو۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا دونوں عمل بالکل یکساں قسم کے عمل ہیں۔ اگر وہ غلط ہیں تو دونوں کے لیے غلط ہیں اور اگر وہ درست ہیں تو دونوں کے لیے درست ہیں۔موجودہ زمانہ کے علما عام طور پر اس قسم کے تضاد میں مبتلا ہیں۔ وہ ایک معاملہ میں ایک شخص کی مذمت کریں گے اور ٹھیک اسی قسم کے معاملہ میں دوسرے کے بارے میں خاموش رہیں گے۔میرا ذاتی مسلک یہ ہے کہ میں ایک کے معاملہ میں بھی خاموش رہتا ہوں اور دوسرے کے معاملہ میں بھی۔

16جون 1986

ہندوستان ٹائمس (16جون 1986) کے آخری صفحہ پر ایک خبر ہے۔اس خبر میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب میں وہاں کی ریلیجس مائنارٹی اور سیکولر میجورٹی کے درمیان ایک نئی نزاع کھڑی ہو گئی ہے۔ یہودیوں کا مذہبی طبقہ اس کے خلاف سخت احتجاج کر رہا ہے کہ عورتوں کی نیم عریاں تصویریں اشتہارات میں استعمال کی جائیں۔ تل ابیب میں ایسے بہت سے اشتہارات پر سیاہی پھیری گئی یا ان کے بورڈ جلائے گئے جن  میں عورتوں کو نہانے کے لباس میں دکھایا گیا تھا۔اخبار کی رپورٹ کا ایک پیراگراف یہ ہے:

"We do not believe in violence, but the secular people have declared war on us. We will return war for war, a war to end all wars. Rabbi Avraham Salomon, a leader of the ultraorthodox sect Eda Haredit, told the Associated Press in an interview."

ہم تشدد میں یقین نہیں رکھتے۔مگر سیکولر لوگوں نے ہمارے خلاف ایک جنگ چھیڑ دی ہے۔ ہم جنگ کا جواب جنگ سے دیں گے۔ ایک جنگ جو تمام جنگوں کو ختم کرنے کے لیے ہوگی۔ یہ بات یہودیوں کے ایک کٹر مذہبی لیڈر نے کہی۔

یہ واقعہ جو اسرائیل میں ہوا ، اسی قسم کے واقعات مختلف اسلامی ملکوں میں بھی ہو چکے ہیں اور خود ہندوستان میں بھی ہوتے ہیں۔ ان کو کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی نظام کا علمبردار کہتے ہیں۔اگر عریاں اشتہارات پر سیاہی پھیرنا یا ان کو جلانا پھونکنا کوئی دینی فعل ہے تو عین یہی فعل یہودیوں کا مذہبی طبقہ بھی اسرائیل میں کر رہا ہے۔ کیا نام نہاد اسلام پسند طبقہ اس معاملہ میں یہودیوں کو بھی وہی کریڈٹ دینا پسند کرے گا جس کو اس نے اپنے مفاخر کی فہرست میں درج کر رکھا ہے۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom