سوال و جواب
سوال
قرآن میں یہ دعا آئی ہے:رَبَّنا لَا تَجْعَلْنا فِتْنَةً لِلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ (10:85)۔ یعنی، اے ہمارے رب، ہمیں ظالم لوگوں کے لیے فتنہ نہ بنا۔ اسی طرح سورہ الممتحنہ میں ہے: رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِلَّذِينَ كَفَرُوا (60:5)۔ یعنی، اے ہمارے رب، ہم کو منکروں کے لیے فتنہ نہ بنا۔
ان دونوں آیتوں میں’’ہمیں ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا‘‘ کا مطلب کیا ہے۔
جواب
اللہ تعالیٰ نے اس دعا کے ذریعے اہل ایمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ کسی بھی اعتبار سے غیر اہل حق کو فتنہ اٹھانے کا موقع نہ دیں ۔ایک مفسر نےاس کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے:لا تجعلنا سببا لزيادة طغيانهم (تفسیرمظہری، جلد5، صفحہ 50)۔ یعنی اے رب ہم کو سبب نہ بنا ان کی سرکشی میں اضافہ کا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی طرف سے کوئی ایسا غلط اقدام نہ کریں، جس سے کسی کو یہ جواز (justification)ملے کہ وہ ہمارے اوپر ظلم کرے، وہ ہم کو دین پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے سے روکے۔
اصل یہ ہے کہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عالمی حالات میں ایک نیا تاریخی عمل (historical process)شروع ہوا، جو اس حد تک پہنچا کہ اللہ کے دین کو عمومی اعتراف (general acceptance)کا درجہ حاصل ہوگیا۔ اب اپنے اور غیر (we and they)کا فرق مٹ گیا ہے۔ موجودہ دور میں کچھ لوگ اگر مومنین ہیں تو بقیہ لوگ مؤیدین (supporters)ہیں۔ اس طرح اہلِ ایمان کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی حقیقی رکاوٹ کے بغیر اللہ کے دین پر عمل کریں، اور اس کو سارے عالم میں پہنچائیں۔
اب دنیا کامل مذہبی آزادی کے دور میں ہے۔ اب اسلام کی دعوت کے لیے دوسری قوموں کی طرف سے کوئی حقیقی رکاوٹ نہیں۔ موجودہ زمانے میں اگر کوئی شخص یا گروہ حقیقی معنوں میں پر امن طریق کار کو اختیارکرتے ہوئے اپنے دین پر عمل کرتا ہے، اور اس کو دوسروں تک حکمت کے ساتھ پہنچاتا ہے تو اس کو ہرگز کسی سے کسی قسم کے جبر یا تشدد کا سامنا پیش نہیں آئے گا۔ اب اگر رکاوٹ پیدا ہوسکتی ہے تو صرف اس وقت جب کہ مسلمان خود اپنے کسی غیر حکیمانہ عمل کی بنا پر لوگوں کو غیر ضروری طور پر اپنا مخالف بنالیں۔وہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کا طریقہ اختیار کرکے دوسروں کے اندر ایسا ردعمل (reaction) پیدا کریں کہ جو ان کے لیے عملاً موافق اقوام بنے ہوئے ہیں، وہ غیر ضروری طور پران کے مخالف بن جائیں۔
سوال
عذاب قبر کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ القَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2308)۔ یعنی قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی اس سے نجات پاگیا تو اس کے بعد کا راستہ آسان تر ہے، اور جو کوئی اس میں بچ نہ سکا، تو اس کے لیے بعد کا راستہ سخت مشکل ہے۔
قبر دوسری زندگی کا دروازہ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی شخص کے لیے اس دروازہ کو کھلتے ہوئے اور پھر اس کے اوپر بند ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ مگر ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں، جو یہ جانتے ہیں کہ خود ان کے لیے بھی یہ دروازہ کھولا جائے گا، اور پھر اسی طرح بند ہوگا، جس طرح وہ دوسروں کے اوپر ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔
اس معاملے میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ قبر میں کس طرح کی پکڑ ہوگی یا کس طرح کا انعام دیا جائے گا۔ عذاب خواہ کم ہو یا زیادہ، عذاب انسان کے لیے تکلیف ہی ہے۔ اس لیے اصل فکرمندی کی بات یہ ہے کہ ایک انسان یہ سوچے کہ اس نے قبرکے لیے کیسی تیاری کی ہے۔ ایک مرتبہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ نےاس کو قیامت کا وقت بتانے کے بجائے یہ پوچھا تھا کہ تم نے اس کے لیے کیا تیاری کی ہے:وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3688)۔ یہی سوال یہاں بھی انسان کو اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ وہ اگر قبر یا قیامت کے تعلق سے فکرمند ہے تو اس نے وہاں کی گرفت سے بچنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی ہے۔