معیشتِ ضنک
قرآن کی ایک آیت ہے: وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا (20:124)۔ یعنی، جو شخص میری نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا۔ اس میں مَعِيشَةً ضَنْكًا سے غربت وافلاس مراد ہے یا کوئی دوسری چیز۔(ایک قاری الرسالہ، یوپی)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اطمینان قلب کا تعلق معاشی فراوانی سے نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق مثبت طرزِ فکر سے ہے۔ اگر آپ فطرت کے اصول کو سمجھیں، اوراس کے مطابق زندگی گزاریں تو آپ کو فطری طور پر اطمینان قلب حاصل ہوگا، کم یا زیادہ آپ کو شرح صدر حاصل رہے گا۔ آپ ایک حقیقت پسند انسان بن جائیں گے، جو کہ بلاشبہ اطمینان قلب کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہی بات ایک حدیثِ رسول میں اس طرح کہی گئی ہے: اس شخص کے لیے خوش خبری ہےجس کو اسلام کی ہدایت ملی اور بقدرِ ضرورت روزی ملی۔ اوراس نے قناعت کا طریقہ اختیار کیا(سنن الترمذی، حدیث نمبر 2504)۔
دوسری طرف معیشتِ ضنک (تنگ زندگی) کا تعلق مشکل معیشت سے نہیں ہے، بلکہ منفی طرز فکر سے ہے۔ اگر آپ کا طرز فکر مثبت ہو، تو ہر صورتِ حال میں آپ کو اطمینان قلب حاصل رہے گا۔ تنگی اور فراخی دونوں میں آپ معتدل زندگی گزاریں گے۔ آپ ہر صورتِ حال کو مینج (manage) کرنے کا فن جان لیں گے۔ آپ نارمل حالت اور بحران کی حالت دونوں کو معتدل انداز میں نبھانے کے قابل ہوجائیں گے۔ اس کے خلاف جو زندگی بنتی ہے، اسی کو معیشت ضنک کہا گیا ہے، اور اس کے مطابق جو زندگی ہو، وہی فراخی والی زندگی کہی جائے گی۔
مثلاً اگر کوئی شخص اللہ کے ذکر پر قائم ہو، یعنی وہ یہ جانے کہ انسان کی پیدائش کے معاملے میں اللہ کا تخلیقی نقشہ کیا ہے، تو وہ اس حقیقت کو جانے گا کہ اللہ کا تخلیقی نقشہ انسانی آزادی کے اصول پر قائم ہے۔ یعنی آپ کو جس طرح اس دنیا میں قول و فعل کی آزادی حاصل ہے، اسی طرح دوسروں کی بھی قول فعل کی آزادی حاصل ہے۔ ایسی حالت میں آپ دیکھیں کہ اگر کوئی شخص آپ کے نظریے کے خلاف بول رہا ہے، تو آپ کو غصہ نہیں آئے گا۔ آپ مذکورہ شخص سے ڈسکشن کریں گے، نہ کہ اس کے خلاف منفی سوچ کا شکار ہوجائیں گے۔