اصلاح کا طریقہ
سیرتِ رسول کا مطالعہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے اصلاح کے لیے جو طریقہ اختیار کیا، وہ یہ تھا کہ آپ نے پہلے فکری مہم کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو بدلا۔جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کےبیان سے معلوم ہوتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ قرآن میں سب سے پہلے ایسی سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔یعنی ان حقائق کا بیان جن سے فکر میں تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کی طرف مائل ہو گئے (حَتَّى إِذَا ثَابَ النَّاسُ إِلَى الْإِسْلَامِ) تب حرام اور حلال کے احکام اترے۔ برعکس طور پراگر پہلے ہی یہ نازل ہو تاکہ تم لوگ شراب نہ پیو یا زنا نہ کروتو وہ ، زبانی یا عملی طور پر، ضرور یہ کہتے کہ ہم یہ سب کام نہیں چھوڑیں گے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 4993)۔
عرب اگرچہ یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ حضرت ابراہیم کے دین پر ہیں، مگر طویل عرصہ گزر جانے کی وجہ سے وہ اپنی تحریف شدہ سماجی روایت میں کنڈیشنڈ ہوچکے تھے۔ان کو ڈی کنڈیشنڈ کرنااسی وقت ممکن تھا، جب کہ ان کے ایک ایک فرد میں تبدیلی لائی جاتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طریقہ کو اپنا کر عرب کی سرزمین کو’’ ہیروؤں کی نرسری‘‘میں تبدیل کردیا۔ اس اصول کو آپ نے اس طرح بیان کیا ہے:إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى(صحیح البخاری، حدیث نمبر1)۔ مطلب یہ ہے کہ عمل کی بنیاد نیت پرہے، اورکسی انسان سےوہی اعمال ظاہرہوتے ہیں، جیسی وہ نیت کرتا ہے۔
(نیت یعنی سوچ و ارادہ)۔ اس انقلابی تبدیلی کی وجہ بیان کرتے ہوئے مولانا وحید الدین خاں صاحب نے اپنے ایک سفرنامہ میں جو لکھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے:’’پہلی وحی کے طور پر قرآن میں اقرأ کا حکم آنا اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ خدائی کلام ہے ۔ جب آپ کی نبوت کا آغاز ہوا اس وقت عرب میں بہت سے مسائل تھے۔ مثلاً کعبہ میں 360 بت، رومیوں اور ایرانیوں کی عرب علاقوں میں سیاسی دخل اندازی، سماج میں مختلف قسم کے جرائم، غربت اورپانی کی قلت، وغیرہ ۔ مگر قرآن میں جو پہلی آیت اتری ، اس میں ان مسائل کا ذکر نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسائل خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں، ان کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں اپنے عمل کا آغاز ہمیشہ علم اور شعور کی بیداری سے کرنا چاہیے۔ یہ نہایت اہم خدائی اصول ہے۔‘‘آج بھی سماج کی اصلاح کے لیےیہی طریقہ کارگر ہے۔(مولانا فرہاد احمد)