مجموعۂ الفاظ

کچھ مضامین ایسے ہوتے ہیں، جو مجموعۂ الفاظ تو ہوتے ہیں، مگر وہ مجموعۂ معانی نہیں ہوتے۔ مضمون لکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی پہلے غور وفکر کرکے ایک بامعنی تصور اپنے ذہن میں قائم کرے۔ پھر اس کو بامعنی الفاظ میں لکھے۔ ایسا مضمون صرف اس وقت آدمی لکھ سکتا ہے، جب کہ وہ جتنا وقت لکھنے میں لگائے، اس سے زیادہ وقت وہ اس سلسلے میں سوچنے میں لگائے۔ وہ اپنی باتوں کو پہلے سوچ کر ہضم کرے، اور اس کے بعد وہ الفاظ کی صورت میں اس کو بیان کرے۔ایسا مضمون غور وفکر کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔انسان کو جو ٹیک اوے (takeaway) ملتا ہے، وہ اسی قسم کے مضمون سے ملتا ہے۔ بولنے یا لکھنے میں کلیرٹی (clarity)اس وقت آتی ہے، جب کہ آدمی مکمل طور پر غور و فکر سے کام لے۔

 ایک حدیثِ رسول ہے: مَنْ صَمَتَ نَجَا (مسند احمد، حدیث نمبر 6481)۔یعنی جو خاموش رہا، وہ نجات پاگیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو خاموش رہا، اس نے گہرائی کے ساتھ سوچا، اور جس نے گہرائی کے ساتھ سوچا وہ کامیاب ہوا۔ 

میں نے ایک تجربہ بار بار کیا ہے، کچھ لوگ بڑے بڑے اجتماعات میں جاتے ہیں۔ پھر جب وہ واپس آتے ہیں، اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ اجتماع میں شرکت سے آپ کو کیا ملا۔ آپ کاٹیک اوے کیا تھا۔ تو وہ کوئی خاص بات بتا نہیں پاتے۔ عمومی انداز میں وہ اجتماع کی بات بتاسکتے ہیں، لیکن جب متعین انداز میں پوچھا جائے تو ان کے پاس بتانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔اس طرح کی مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں کچھ نہیں ملا۔ کوئی قابلِ ذکر بات ان کو اس قسم کے شرکت سے نہیں ملی۔ کوئی وزڈم کی بات انھوں نے نہیں پائی۔   

بامعنی تقریر وہ ہے جس کو سن کر آپ کے ذہن میں کچھ نئے خیالات پیدا ہوں۔آپ کے دماغ میں کوئی حرکت پیدا ہو۔ آپ کو کچھ نئے آئڈیاز (ideas)سوچنے کو ملیں۔ جب ایسا نہ ہو تو سمجھ لیجیے کہ بولنے والے نے آپ کو الفاظ تو دیے، لیکن کوئی بامعنی(meaningful)بات وہ آپ کو نہ دے سکا۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom