مطالعۂ حدیث
شرح مشکاۃ المصابیح
(حدیث نمبر 152-157)
152
عبد الله بن عمرو رضي الله عنه كهتے هيں كه ميں ايك دن دوپهر كے وقت رسول الله صلي الله عليه وسلم كے پاس آيا۔ راوي كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے دو آدميوں كي آواز سنيں جو قرآن كي ایک آيت ميں اختلاف كررهے تھے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم همارے پاس آئے۔ آپ كے چهرے پر غصے كے آثار تھے۔ آپ نے فرمايا كه تم سے پهلے جو لوگ هلاك هوئے وه اسي لیے هلاك هوئے كه انھوں نے خداكي كتاب ميں اختلاف كيا(صحیح مسلم، حدیث نمبر2666)۔
تشریح:مسند احمد کی روایت (نمبر3724) میں ہے کہ ایک مرتبہ دو اصحاب رسول قرآن کی کسی آیت کو لے کر اختلاف کرنے لگے توآپ نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ تم دونوں ٹھیک پڑھ رہے ہو، آپس میں اختلاف نہ کرو(كِلَاكُمَا مُحْسِنٌ فَلَا تَخْتَلِفُوا) ۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں لازماً ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوں۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مختلف اعتبار سے اتنا زیادہ فرق پایا جاتا ہے کہ ہر انسان کو مسٹر ڈیفرنس کہنا صحیح ہوگا۔ اس دنیا میں ہر سماج فرق و اختلاف والا سماج ہے۔ یہ فرق و اختلاف چونکہ خود فطرت کا ایک لازمی حصہ ہے اس لیے اس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ ایسی حالت میںقابل عمل صورت صرف یہ ہے کہ فرق کے ساتھ نبھانے کا اصول اختیار کیا جائے، نہ کہ فرق کو مٹانے کا۔فطرت کے اس اصول کا تعلق مذہبی معاملہ سے بھی ہے اور سیکولر معاملہ سے بھی۔ اس دنیا میں کوئی بھی نظام، مذہبی ہو یا غیر مذہبی، کامیاب طورپر وہی لوگ بنا سکتے ہیں جو ڈیفرنس مینجمنٹ کا آرٹ جانتے ہوں۔ فرق و اختلاف کو مٹانا نزاع پیدا کرتا ہے اور فرق و اختلاف کو مینج کرنا امن اور ہم آہنگی کا سبب بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو انسان سے قرآن ميں تدبر مطلوب هے(ص،38:29)، قرآن ميں اختلاف مطلوب نهيں۔ تدبر يه هے كه استفادےكي نيت سے قرآن كي آيتوں ميں غور وفكر كيا جائے۔اس كے برعكس، اختلاف يه هے كه قرآن كي آيتوں ميں غير ضروري بحثيں نكالي جائيں، اوررائے کےاختلاف (فرق) کو اختلافِ نزاع تک پہنچایا جائے۔
153
سعد بن ابی وقاص رضي الله عنه كهتے هيں كه رسو ل الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: مسلمانوں ميں سب سے بڑا مجرم وه هے جو ايك ايسي چيز كے بارے میں سوال كرے جو لوگوں كےاوپر حرام نهيں كي گئي تھي۔ پھر اس كے سوال كي وجه سے وه حرام كر دي گئي۔ (متفق عليه: صحیح البخاری، حدیث نمبر7289، صحیح مسلم، حدیث نمبر2358(
اس حدیث کی وضاحت قرآن کی ایک آیت سے ہوتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْئَلُوا عَنْ أَشْياءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ(5:101)۔ یعنی، اے ایمان والو، ایسی باتوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر وہ تم پر ظاہر کردی جائیں تو وہ تم کو گراں گزریں۔
مذکورہ آیت اور حدیث کو ملا نےسے معلوم هوتا هے كه وه كون سا سوال هے جو اسلام ميں ناپسند كيا گياهے۔یعنی وہ سوال جس سے ایک انسان کے لیے آسانی کا راستہ کھلنے کے بجائے مشقت پیدا ہوجائے۔اس قسم کے غیر ضروری سوالات میں پڑنے کی ممانعت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی وہی آج بھی مطلوب ہے۔ آج بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ جو حکم جس طرح دیا گیا ہے اس کو اسی طرح رہنے دیا جائے۔ غیر ضروری سوالات قائم کرکے اس کی حدود وقیود کو بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اس سے انسان مشکلوں میں پڑجاتا ہے۔ آسان طریقہ وہ ہے جو مسئلے کو مسئلے تک محدود رکھے۔ اس کے مقابلے میں مشکل طریقہ وہ ہے جو اصل مسئلہ میں دوسرے مسئلے کا اضافہ کردے۔
دین کی اصل روح اللہ کا خوف اور آخرت کی فکر ہے۔ مگر بعد کے زمانہ میں جب اندرونی روح سرد پڑتی ہے تو ظواہر کا زور بہت بڑھ جاتا ہے۔ اب غیر ضروری موشگافیاں کرکے نئے نئے مسائل بنائے جاتے ہیں۔پچھلے زمانے میںیہود کا یہی حال ہوا تھا۔ انھوں نے خدا کے دین کے نام پر ظاہری مسائل کی جکڑ بندیوں سے ایک خود ساختہ ڈھانچہ بنا لیا تھا اور اس کو خدا کا دین سمجھتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے ان کے سامنے دین کو اس کی فطری صورت میں پیش کیا۔ غیر ضروری پابندیوں کو ختم کرکے سادہ اور آسان دین کی طرف انسانوں کی رہنمائی فرمائی۔ یہی سادہ اور آسان دین اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے۔
154
ابوهريره رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: آخری زمانے ميں بهت سے جھوٹے دجال ظاهر هوں گے۔ وه تم كو ايسي حديثيں سنائيں گے جن كو نه تم نے سنا هوگا اور نه تمھارے باپ دادا نے سناهوگا۔ پس تم ان سے بچنا اور ان كو اپنے سے دور ركھنا۔ تاكه وه تم كو گمراه نه كريں اور تم كو فتنے ميں نه ڈالنے پائيں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر707)
دجال سے مراد خدّاع هے (لسان العرب ، جلد11،صفحہ 237)۔ يعني بهت بڑا دھوكه دينے والا۔ معمولي دھات كے برتن پرسونے كا پاني چڑھا كر اس کو سونا ظاهر كيا جائے تو اس كو بھي دجل كهاجاتا هے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو انسانوں کے ساتھ غلط رہنمائی کا معاملہ کریں گے۔ چوں کہ غلط رہنمائی کا عمل وہ لوگ نہایت ہوشیاری کے انداز میںانجام دیں گے،اور عام انسان اس کی غلط رہنمائی کو صحیح رہنمائی سمجھ لیں گے، اس لیے ان کو حدیث میں دجال (The Great Deceiver)کہا گیا ہے۔
حديث كا مطلب يه هے كه بعد كے زمانے ميں امت ميں ايسے فريبي لوگ پيداهوں گے جو غيرديني باتوں كو دينی بنا كر پيش كريں گے۔ان كي باتيں اپني حقيقت كے اعتبار سے سراسر غير اسلامي هوں گي مگر موضوع حديثوں اورغلط تفسيروں كے ذريعے وه ان كو اس طرح خوش نما بنائيں گے كه لوگ ان كو عين اسلام سمجھ كر ان پر ٹوٹ پڑيں گے۔ يه امت كي تاريخ ميں شايد سب سے بڑا فتنه هوگا۔ اسي لیے اس كو دجالي فتنه سے تعبير كيا گيا۔دجال کا فتنہ آئڈیالوجی کا فتنہ ہےجولوگ اس فتنہ میں مبتلا ہوں، ان کو دجالی فریب سے نکالنے کے لیے دوبارہ حجت یعنی عقلی استدلال کا طریقہ استعمال کرناہوگا۔
155
ابو هريره رضي الله عنه كهتے هيں كه اهل كتاب تورات كو عبراني زبان ميں پڑھتےاور عربي ميں اس كا ترجمه كرتے۔ رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا كه اهلِ كتاب كي نه تصديق كرو اور نه ترديد۔ تم يه كهه دو كه هم الله پر ايمان لائےاور اس پر ايمان لائے جو هماري طرف اتارا گيا هے۔ (صحیح البخاري، حدیث نمبر7542)
تشریح: حديث كي يه بات عام مسلمانوں كي نسبت سے هے۔ عام مسلمان جو علمي تجزيے اور تحقيق كي صلاحیت نه ركھتے هوں ان كو اس طرح كے معاملے ميں ايسا هي رويه اختيار کرنا چاهیے مگر جهاں تك اهل علم كا تعلق هے وه ديني مقاصد كے تحت قديم صحيفوں كا مطالعه كرسكتے هيں۔
156
ابو هريره رضي الله عنه كهتےهيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: آدمي كے جھوٹا هونے كے لیے يهي كافي هے كه وه جس بات كو سنے اس كو بيان كرنے لگے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر505)
تشریح: جھوٹ يه هے كه آدمي ايك ايسي بات كهے جو واقعہ كے خلاف هو۔ سني هوئي بات كا معامله بھي اپني نوعيت كے اعتبار سے يهي هے۔ سننا بذات خود كوئي درست ذريعهٔ علم نهيں۔ كسي كے خلاف سني هوئي ايك بات اس وقت تك غير معتبر هے جب تك كه وه تحقيقي ذرائع سے ثابت نه هوجائے۔ ايسي حالت ميں كسي كے خلاف ايك بري خبر كو سن كر اس كو بيان كرنا غير مصدقه بات كو دهرانا هے۔ اور غير مصدقه بات اور خلاف واقعه بات كے درميان اپني نوعيت كے اعتبار سے كوئي فرق نهيں۔
اس حدیثِ رسول میں بات کےغیر مطلوب طریقے کو بیان کیا گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بات کا مطلوب طریقہ کیا ہے۔یہ مطلوب طریقہ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی سورہ الحجرات میں یہ اصول اس طرح بیان کیا گیاہے:یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ جَاءَکُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَیَّنُوا أَنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ (49:6)۔ یعنی، اے ایمان والو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبر لائے تو تم اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسانہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو ، پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
قرآن کی اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ بات کو سننے کے بعد اس کو اسی طرح بیان نہ کیا جائے، بلکہ پہلے اس کی تبیین کی جائے۔ تبیین کا مطلب مکمل تحقیق (thoroughly inquiry) ہے۔ بات کو سن کر اسی طرح لوگوںسےبیان کرنا، جھوٹےآدمی کی پہچان ہے، اور بات کو سننے کے بعد ، اس کی مکمل تحقیق کرنا، سچے آدمی کی پہچان ہے۔
157
عبد اللہ ابن مسعود رضي الله عنه كهتے هيں كه رسول الله صلي الله عليه وسلم نے فرمايا: مجھ سے پهلے جس نبي كو بھي الله نے اس كي امت ميں بھيجا تو اس كي امت ميں سے كچھ لوگ اس كے حواري هوئے۔ اور ايسے اصحاب هوئےجو رسول كي سنت كو ليتے تھے اور ان كے حكم كي پيروي كرتے تھے۔ پھر ان كے بعد ان كے ناخلف پيدا هوئے، وه ايسي بات كهتے تھے جس كو وه خود نه كرتے تھے۔ اور وه ايسے كام كرتے تھے جس كا انھيں حكم نهيں ملا تھا۔ پس جو ايسے لوگوں كے ساتھ اپنے هاتھ سے جهاد كر ےوه مومن هے۔ اور جو ايسے لوگوں كے ساتھ اپني زبان سے جهاد كرے وه مومن هے۔ اور جو ايسے لوگوں كے ساتھ اپنے دل سے جهاد كرے وه مومن هے۔ اور اس كے بعد رائي كے دانے كے برابر بھي ايمان كا كوئي درجه نهيں۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر50)
تشریح: اس حديث ميں ايك فطري قانون كا ذكر هے جو هر نبي كي امت كے ساتھ پيش آتاهے۔ہر نبي كي امت كي پهلي نسل ان افراد پر مشتمل هوتي هے جو شعوري انقلاب كے تحت نبي كے ساتھي بنتے هيں۔ مگر امت كي بعد كي نسلوں كا معامله اس سے مختلف هوتاهے۔ يه لوگ شعوري انقلاب كے بغير صرف پيدائشي تعلق كي بنا پر امت ميں شامل هوجاتےهيں۔ بعد كے لوگوں ميں وه زنده عقيده اور اعليٰ كردار باقي نهيں رهتا جو امت كے ابتدائي لوگوں ميں تھا۔
جب كوئي امت زوال كے اس دور ميں پهنچ جائے تو اس وقت ضروري هوجاتاهے كه اس كو از سرِ نو زنده ايمان پركھڑا كيا جائے۔ يه اصلاحي كام امت كے ان افراد كو كرناهوتا هے جو دين كا گهرا علم ركھتے هوں۔ ان افراد پر يه فرض هوجاتا هے كه وه احياء اور اصلاح كے اس عمل ميں اپني ساري طاقت لگائيں۔ اگر وه عملي اعتبارسے يه جدوجهد كرسكتے هيں تو وه عملي اعتبار سے اس كي كوشش كريں۔ اگر ايسا ممكن نه هو تو ان پر فرض هے كه وه زبان سے امر حق كا اعلان كريں۔ اور اگر يه بھي ممكن نه هو تو وه امت كي اصلاح كے لیے تڑپيں اوراس كے لیے دعائيں كريں۔ اگر يه تيسري چيز بھي نه پائي جائے تو اس كا مطلب يه هو گا كه ايمان كي آخري علامت بھي لوگوں ميں باقي نهيں۔