دریافتِ حق کی شرط
قرآن کی سورہ نمبر 93-94 دو توأم (twin) سورتیں ہیں۔ یعنی ایک ہی مشترک موضوع ہے جو دونوں سورتوں میں بیان ہوا ہے۔ اِن سورتوں میں جو پیغام ہے، وہ پوری طرح اس وقت سمجھ میں آتا ہے، جب کہ دونوں سورتوں کا مطالعہ مشترک طور پر کیا جائے۔
سورہ نمبر 93(الضحیٰ) میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اللہ نے تم کو حقیقت کی تلاش میں سرگرداں پایا تو اس نے تم کو ہدایت (guidance) دی۔ اِس کے بعد سورہ نمبر 94(الم نشرح) میں اس معاملے میں مزید وضاحت اِن الفاظ میں آئی ہے: أَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَ۔ وَوَضَعْنا عَنْكَ وِزْرَكَ۔ الَّذِي أَنْقَضَ ظَهْرَكَ۔ یعنی اللہ نے تمھارا سینہ کھول دیا اور اُس بوجھ کو تمھارے اوپر سے اتار دیا جس نے تمھاری کمر توڑ رکھی تھی۔
سورہ الم نشرح میں’’کمر توڑدینے والے بوجھ‘‘ سے مراد وہی چیز ہے، جس کو سورہ الضحیٰ میں حقیقت کی تلاش میں سرگردانی (93:7) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت سے پہلے ایک اور حالت مطلوب ہے،یعنی قبل از ہدایت حالت۔ وہ یہ کہ آدمی پوری طرح متلاشیِ حق (truth seeker) بن چکا ہو۔ یہ تلاشِ حق اتنی شدید ہونا چاہیے کہ وہ اس کے لیے ایک ایسا ذہنی بوجھ بن جائے جس نے اس کے پورے وجود کو دبا دیا ہو۔ یہ دراصل سنجیدہ تلاش (sincere pursuit) کی آخری حالت کی تصویر ہے۔ جو شخص واقعی معنوں میں حق کا متلاشی ہو، اس کا حال وہی ہوجائے گا جس کی تصویر قرآن کی ان آیات میں بتائی گئی ہے۔
قرآن کی اِن آیتوں میں بظاہر ایک فرد، یعنی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بیان ہوا ہے، لیکن یہ کوئی انفرادی بات نہیں، بلکہ وہ فطرت کا ایک عام اصول ہے۔ اِس دنیا میں سچائی صرف اس شخص کو ملتی ہے جو تلاشِ حق کے مذکورہ مرحلے سے گزرا ہو، جس شخص پر یہ مرحلہ نہ گزرے، اس کو سچائی کی دریافت بھی نہیں ہوسکتی۔ اِس معاملے میں کوئی بھی دوسری چیز گہری تلاشِ حق کا بدل نہیں۔