ایک انٹرویو

)زیرِ نظر انٹرویو مولانا وحید الدین خاں صاحب سے ستمبر 1991 میں’’زندگی‘‘لاہور کے نمائندہ اصغر عبد اللہ نےلیا تھا۔ ماہنامہ تذکیر لاہور کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کیا جارہا ہے(

سوال: مولانا قارئین’’زندگی‘‘ کو اپنے سفرزندگی کا احوال سنائیں۔

جواب:میں1925میں اعظم گڑھ میں پیدا ہوا۔ہمارا گھرانہ مذہبی گھرانہ تھا۔ابتدائی تعلیم ایک دینی مدرسے میں حاصل کی۔وہاں سے فراغت کے بعد تلاش حق کا جذبہ پیدا ہوا۔میں نے یکسوئی سے مطالعہ شروع کردیا۔جس سے اسلام پر از سرنو میرا یقین بحال ہوا۔یہ یقین مدرسے میں حاصل نہ ہوا تھا۔مطالعے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ اسلام کو عصر حاضر میں علم جدید کا چیلنج در پیش ہے اور دور حاضر میں جسے دعوت اسلام کا کام کرنا ہے،اس کے لیے علم جدید پر عبورحاصل کرنا لازم ہے۔مدرسے میں، میںنے عربی زبان پڑھی تھی۔اب انگریزی زبان سیکھنے کا شوق ہوا۔قریب قریب20سال میرے اوپر ایسے گزرے کہ میں نے انگریزی کے سوا کچھ نہ پڑھا۔انگریزی میں ہی غرق رہا۔اس طرح جدید علوم تک میری رسائی ہوئی۔ ’’اسلام اور عصر حاضر‘‘ میرا خصوصی موضوع بن گیا۔

سوال: اس کے علاوہ آپ نے کن کن موضوعات کو مطالعے کا ہدف بنایا؟

جواب: جو کچھ ملا،پڑھ لیا۔کسی ایک مضمون پرتوجہ مرکوز نہیں کی۔مثلاً میں نے یہ طے کیا کہ انگریزی اخبار ہی پڑھوں گا۔ابتدا میں کچھ سمجھ میں آتا،کچھ نہ آتا۔لیکن پھر رواں ہوگیا۔اس کے بعد میں نے لائبریریوں کارخ کیا اور ان کو کھنگال ڈالا۔کئی ایسی لائبریریاں بھی تھیں کہ کتابوںپرگردجمی ہوئی تھی۔شایدمیں نےہی ان کو پہلی مرتبہ کھول کر پڑھا۔فلسفہ، سائنس،معاشرت،معیشت جس موضوع پر جو کچھ ملا، پڑھ ڈالا۔

سوال:آپ نے دینی تعلیم کے علاوہ دوسری تعلیم کہاں حاصل کی؟

جواب:دینی تعلیم ہی میں نے باقاعدہ حاصل کی،اس کے علاوہ ذاتی مطالعہ کیا۔

سوال:جماعت اسلامی سے وابستگی کب اختیار کی؟

جواب:نوجوانی میں ہی جماعت اسلامی سے قربت پیدا ہوئی۔بعد ازاں میںنے جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی۔ تقریباً پندرہ برس اس جماعت سے وابستہ رہا۔1957 کے لگ بھگ مجھے جماعت اسلامی سے فکری اختلاف پیدا ہوا۔ میں نے مطالعہ جاری رکھا، جماعت اسلامی کے ذمہ دار اصحاب سے باتیں کیں،اصحاب علم سے خط و کتابت کی۔رفتہ رفتہ مجھ پرجماعت اسلامی کے فکر کی غلطی واضح ہوتی گئی۔میں نے مناسب سمجھا کہ اب مجھے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کر لینی چاہئے۔جماعت اسلامی کے ذمہ داران کا اصرار تھا کہ میں جماعت اسلامی سے تعلق منقطع نہ کروں۔کوئی راضی نہ تھا کہ میں جماعت اسلامی چھوڑ دوں۔لیکن میرے لیے ایسا ممکن نہ تھا۔

سوال:ایسا کیوں ممکن نہ ہوا؟

جواب:اس لیے کہ میری دیانت دارانہ رائے یہ تھی کہ جماعت اسلامی مولانا مودودی مرحوم کے فکر کی بنیاد پراٹھی ہے اور تاریخی اسباب نے ان کے لٹریچر کو یہ حیثیت دے دی کہ اب وہی ارکان جماعت کی نظر میں جماعت اسلامی کے فکر کی مستند شرح ہے۔ایسی حالت میں ایک شخص اگر جماعت اسلامی کے اندر رہتے ہوئے دین کی ایسی تشریح کو پھیلانے کی کوشش کرتا ہے جو مولانا کے لٹریچر کے مطابق نہیں تو یہ دیانت کے خلاف ہے۔ جماعت اسلامی کا پلیٹ فارم ان کے اپنے نظریات کی اشاعت کے لیے ہے،کسی دوسرے کے نظریات کی تبلیغ کے لیے نہیں۔

سوال:لیکن جماعت اسلامی کے ذمہ داران نے تو آپ کو اجازت دے دی تھی کہ آپ اپنے اختلافات پر قائم رہتے ہوئے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر کام کر سکتے ہیں؟

جواب:جماعت اسلامی کے اندر رہ کر کام کرنے کی ایک ہی صورت تھی کہ جماعت مولانا مودودی کے لٹریچر کے بارے میں یہ طے کر دیتی کہ وہ جماعت اسلامی کے فکر کی مستند شرح نہیں،میں نے امیر جماعت اسلامی ہند کو یہ تجویز پیش بھی کی،جو ان کو قبول نہ تھی۔ظاہر ہے،اس کے بعد میرے لیے ایک ہی راہ باقی رہ گئی کہ میں جو کچھ کہنا چاہتا ہوں اس کو کہنے کے لیے جماعت اسلامی کے دائرے سے باہر نکل آؤں۔سو میں نے یہ کیا اور میں اپنے اس فیصلے پر مطمئن ہوں۔

سوال:جماعت اسلامی کے فکر سے آپ کو بنیادی اختلاف کیا تھا؟

جواب:دیکھیے، مولانا مودودی مرحوم کی غلطی عام غلطیوں سے مختلف ہے۔انہوں نے یہ نہیں کیا کہ دین،عقیدہ اور عمل کے جس مجموعہ کا نام ہے، اس میں کمی بیشی کی ہو۔وہ سارے دین کو تسلیم کرتے ہیں،لیکن اس مجموعہ کے مختلف اجزا کی واقعی حیثیت ان کی تشریح میں بدل گئی ہے۔نتیجہ یہ ہے کہ ان سے متاثر اذہان بظاہر سب کچھ مانتے ہیں،لیکن سب کچھ کو وہ اس طرح نہیں مانتے جس طرح کہ انہیں ماننا چاہیے۔

قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل چیز خدا سے تعلق پیدا کرنا اور آخرت کے عذاب سے ڈرنا ہے۔اس کو ہمیں اپنانا ہے اور اسی کی طرف ہمیں اہل دنیا کوبلانا ہے۔لیکن اس فکر نے آخرت اور تعلق باللہ کے پہلو کو محض تربیت کی ضرورت بنا کر رکھ دیا ہے۔اس کی تشریح کے خانے میں یہ چیزیں ایسی حیثیت اختیار کی گئی ہیں۔گویا یہ کارکن تیار کرنے کی تربیت گاہیں ہیں،نہ کہ یہی وہ اصل بات ہے جس کے لیے ہمیں متحرک ہونا ہے۔مولانا مودودی مرحوم کے خیال میں اصل مسئلہ دنیا میں انقلاب برپا کرنے کا ہے۔آخرت کاخوف اور اس طرح کی دوسری چیزیں اس لیے ہیں تاکہ جو لوگ انقلاب عالم کا یہ پروگرام لے کر اٹھیں یا انقلاب کے بعد نظام دنیا کو سنبھالیں ان میں مقصد کی لگن اور کردار پیدا ہو۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ جماعت اسلامی کے لوگ آخرت کی کامیابی کے بجائے دنیا میں کامیاب ہونے کو اپنا حقیقی مقصد بنائے ہوئے ہیں۔ان کا حقیقی مقصد تو بلا شبہ آخرت ہی کی کامیابی ہے،لیکن آخرت کے مقصد کوحاصل کرنے کے لیے دنیا میں کیا کرنا ہے،اس کے متعلق ان کا تصور غلط ہو گیا ہے۔ایک شخص اگر یہ نظریہ قائم کر لے کہ دنیا کی مادی قوتوں کی تسخیر آخرت کی کامیابی کا ذریعہ ہے اور یہ سوچ کر وہ اس کے لیے کام کرنا شروع کر دے تو اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ اصل مقصد کی حیثیت سے تو بے شک اس نے آخرت میں خدا کی رضا ہی کو سامنے رکھا ہے مگر اس رضا کو حاصل کرنے کی صورت کیا ہو؟ دوسرے لفظوں میں دنیا میں ہم کیا پانے کی کوشش کریں،تاکہ آخرت میں ہم خدا کو پا سکیں؟اس کے متعلق جماعت اسلامی کا تصور بدل گیا ہے۔

اس تشریح کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلق باللہ اور آخرت وغیرہ کی باتیں اگرچہ جماعت اسلامی کے پروگرام میں شامل ہیں،لیکن اس کے افراد میں وہ اپنا حقیقی مقام حاصل نہ کر سکیں۔چنانچہ میں نے دیکھا کہ میں خوف خدا اور فکر آخرت کے حوالے سے جو بات کرتا ہوں اس کو اس تعبیر سے متاثر ذہن رد نہیںکرتا۔وہ اس کو دلچسپی سے پڑھتا اور سنتا ہے،لیکن لٹریچر نے اس کا جو ذہنی سانچہ بنا دیا ہے اس کی وجہ سے اس قسم کی باتیں اس کے اندر صحیح شکل میں نہیں بیٹھتیں۔وہ بس تربیت کے خانے میں چلی جاتی ہیں۔اب چونکہ دین اور فطرت میں کامل مطابقت ہے، اس لیے اگر فطرت میں ذرا سی کجی آ جائے تو دین اس کے اندر ٹھیک ٹھیک بیٹھ نہیں سکتا۔لہٰذا سننے اور پڑھنے کے باوجود اس طرح کی باتوں کا واقعی اثر نہیں ہوتا۔یہی وجہ تھی کہ مجھے فیصلہ کرنا پڑا کہ محض مثبت طور پر اپنی بات کہتے رہنا بے سود ہے۔اب ضروری ہے کہ سابقہ تعبیر پر براہ راست تنقید کرکے پہلے اس کا غلط ہونا ثابت کیا جائے۔سو میں نے یہ کیا۔

سوال: آپ نے اس مسئلے پر مولانا مودودی مرحوم سے خط وکتابت بھی کی تھی؟

جواب: دسمبر1961میں،میں نے اپنی تحریر کی ایک نقل تیار کر کے ان کے نام روانہ کی۔ لیکن یہ ان تک پہنچ نہ سکی۔اس کے بعد میں نے پھر ایک نقل 10مئی1962کو دستی طور پر لاہور روانہ کی اور یہ درخواست کی کہ وہ اس کا جواب مرحمت فرمائیں۔لیکن انہوں نے جواب نہ دیا۔میرا خیال ہے کہ اس طرح کا رویہ شاید انہوں نے میرے ساتھ ہی اختیار کیا،ورنہ بالعموم وہ ہر ایک کو جواب دے دیا کرتے تھے۔انہوں نے نہ صرف یہ کہ میرا جواب نہ دیا بلکہ طرح طرح کے فقرے بھی مجھ پر کستے رہے۔ایک مرتبہ انہوں نے لکھا کہ آپ اپنی تحریر کے ہر صفحہ کے ساتھ ایک خالی صفحہ منسلک کر دیں۔میں نے ایسا کردیا۔لیکن جواب ندارد۔البتہ ایک کاغذ پر انہوں نے کچھ لکھا ہوا تھا،لیکن پھر اس کو مٹا ڈالا گیا تھا۔اب چونکہ یہاں ان کی نیت کا مسئلہ آ جاتا ہے اور میرا طریقہ یہ ہے کہ میں نیت پر بات نہیں کرتا کہ نیت کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔

لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ میرے لیے ایک بہت بڑا حادثہ تھا۔میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہوتی اگر مولانا مودودی میرا ذہن بدل دیں۔میں نے یہ بھی کہا کہ مولانا مودودی نے اگر میری تحریر کا جواب نہ دیا صرف اتنا ہی کر دیا کہ تحریر کے کسی ایک حصہ کو لے کر اسے غلط ثابت کر دیا تو اس سے کم از کم یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ میں متزلزل ہو جاؤں گا۔لیکن افسوس کہ میری یہ امید بھی پوری نہ ہوئی۔بہرحال میرا خیال ہے کہ مولانا مودودی نے ایک مخدوش راہ کا انتخاب کیا۔یہ ان کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری تھی کہ وہ میرے اٹھائے گئے نکات کا جواب دیتے۔

سوال: مولانا مودودی مرحوم سے کبھی آپ کی براہ راست ملاقات ہوئی؟

جواب:میری ان سے دو ملاقاتیں ہوئیں۔یہ شاید1971کے لگ بھگ کی بات ہے۔دونوں ملاقاتیں مولانا کے گھر5 اے ذیلدار پارک میں ہوئیں۔ایک ملاقات عصر اور مغرب کے درمیا ن ہوئی۔دوسری ملاقات تنہائی میں ہوئی، جس میں طویل بات چیت بھی ہوئی۔

سوال: کن موضوعات پر گفتگو ہوئی؟’’تعبیر کی غلطی‘‘ پر بھی تبادلہ خیال ہوا؟

جواب:یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے۔میرا خیال ہے کہ اب اس طرح کی ملاقات سے کسی کو کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔اس لیے اس کو رہنے ہی دیجئے۔

سوال: مولانا ابوالکلام آزادنے حزب اللہ قائم کی،مولانا مودودی مرحوم نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی اور اب ڈاکٹر اسرار احمد تنظیم اسلامی کے پلیٹ فارم سے اسلامی انقلاب کی جدوجہد کر رہے ہیں۔لیکن نہ صرف یہ کہ اس طرح کی جماعتوں کے معاشرے پر کوئی قابل ذکر اثرات نظر نہیں آتے،بلکہ ان تحریکوں نے جو اہداف (target)مقرر کیے بظاہر وہ بھی حاصل نہیں ہوسکے۔آ پ کے خیال میں اس کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

جواب:اس کی وجہ بڑی واضح ہے۔ اگر آپ کو گھر بنانا ہے تو پہلے ہی مرحلہ پر آپ اس کی چھت نہیں اٹھا سکتے۔اگر ایسا کریں گے تو قیامت تک گھر نہیں بن سکے گا۔پہلے آپ کو اس کی بنیاد رکھنی ہوگی،پھر ستون تعمیر ہوں گے،پھر اس کے بعد چھت ڈالی جائے گی۔ اخباروںمیں ایک اصطلاح ہے الٹااہرام(Inverted Pyramid)۔مطلب یہ کہ ایک شخص نے مال روڈ (لاہور)پر گولی سے ایک شخص کو ہلاک کردیا ۔خبر یہ ہوگی کہ ایک آدمی گولی سے ہلاک ہوگیا۔اب یہ واقعہ کی آخری صورت ہے،لیکن قبل ازیں گولی مارنے والے آدمی نے منصوبہ بنایا،بندوق حاصل کی،گولی حاصل کی،موٹرسائیکل حاصل کی۔تو اس طرح یہ پورا ایک قصہ ہے۔اب اخبار میں تو اتنی سی خبر آ جاتی ہے کہ ایک آدمی گولی سے ہلاک ہوگیا۔اخبار کے صفحہ پر تو الٹااہرام بن سکتا ہے،لیکن زندگی میں نہیں بن سکتا۔جن لوگوں کا آپ نے ذکر کیا انہوں نے زندگی میں الٹا اہرام بنانے کی کوشش کی۔

اسی طرح پاکستان میں یہ کہا جاتا ہے کہ بھارتی کلچر ہم پر حملہ آور ہے اور یہ کہ ہمیں اس کو روکنا ہے،لیکن کیا وہ رک گیا۔بھارتی فلمیں آپ کے گھر گھر میں دیکھی جا رہی ہیں۔حکومت کا اختیار ناکام ہو گیا ہے۔ایسا کیوں ہو رہاہے؟اس لیے کہ معاشرہ اور فرد تیار نہیں۔مولانا آزاد سے لے کر ڈاکٹر اسرار تک کوئی ایک تحریک بھی ایسی نہیں جس نے حقیقی معنوں میں’’تعمیر فرد‘‘ کا کام کیا ہو، اور ان الٹے کاموں کوچھوڑ دیا ہو جو تعمیر فرد کے کام کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔مثلاً آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بیٹا ڈاکٹر بنے،لیکن آپ اس سے داداگیری بھی کروا رہے ہیں،تو ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ دادا گیری بھی کرے اور ڈاکٹر بھی بنے۔ڈاکٹر بننے کے لیے داداگیری ترک کرنی پڑے گی۔میرے خیال میں ان تحریکوںکی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ان تحریکوں نے اس کام کو اپنا ہدف قرار دے دیا جو دین کا ہدف نہیں،اس طرح ان کی تمام جدوجہد’عملاً‘بے ہدف ہو کر رہ گئی ۔اس تیر نیم کش کی طرح جس کا کوئی ہدف نہ ہو۔(جاری)

ہر والدین کو فطری طور پر اپنی اولاد سے غیر معمولی محبت ہوتی ہے۔ اس محبت کا بہترین استعمال یہ ہے کہ والدین اپنے بچوں کو آداب زندگی سکھائیں۔ وہ اپنے بچوں کو بہتر انسان بناکر دنیا کے کارزار میں داخل کریں۔یہ دیکھاگیا ہے کہ والدین اپنی محبت کا استعمال زیاہ تر اس طرح کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ بچہ جو چاہے وہ اس کے لیے حاضر کردیا جائے، یہی بچہ کے لیے محبت کا سب سے زیادہ بڑا استعمال ہے، مگر یہ بچوں کے حق میں خیر خواہی نہیں۔ان کے حق میں خیرخواہی یہ ہے کہ بچہ جب بالکل چھوٹا ہو اسی وقت سے اس کی تعلیم وتربیت کا سلسلہ شروع کردینا چاہیے تاکہ یہ چیزیں عادت بن کر اس کی زندگی میں داخل ہوجائیں۔ اس تعلیم و تربیت کے تین خاص پہلو ہیں: دین، اخلاق اور ڈسپلن۔

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom