مدعو سے شکایت
داعی سے مدعو کو شکایت ہونی چاہیے یا نہیں۔اس سلسلے میں قرآن میں نبیوں کے حوالے سے ایک بیان ان الفاظ میں آیا ہے: وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَىٰ مَآ ءَاذَيْتُمُونَا (14:12)۔ یعنی جو تکلیف تم ہمیں دوگے ہم اس پر صبر ہی کریں گے:
"We will, surely, bear with patience all the harm you do us."
اس دعوتی اصول کی عملی تفسیر حدیث میں مذکور ایک واقعہ سے ہوتی ہے: صحابی رسول عبداللہ بن مسعود نے کہتے ہیں:كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ فَأَدْمَوْهُ، وَهْوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ : اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ (صحيح البخاری، حدیث نمبر 3477)۔یعنی میں گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔ آپ نبیوں میں سے ایک نبی کا واقعہ بیان کر رہے تھے کہ ان کی قوم نے انہیں مارا اور خون آلود کر دیا ۔ وہ نبی خون صاف کرتے جاتے اور یہ دعا کرتے کہ اے اللہ ! میری قوم کی مغفرت فرما ۔ یہ لوگ جانتے نہیں ہیں۔
مدعو کے خلاف شکایت کیوں نہیں ہونی چاہیے۔اصل یہ ہے کہ شکایت ساده طور پرصرف ایک برائی نہیں ہے، بلکہ وه برائیوں کی جڑ ہے۔ جب انسان کے اندرشکایت پیدا ہوتی ہے تو پھر یہ ہوتا ہے کہ ایک برائی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری برائی پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے۔یعنی شکایت بہت سی دیگر برائیاں بھی اپنے ساتھ لاتی ہے۔
جب مدعو کے خلاف داعي كے دل میں شکایت پیدا ہوگی تو نتیجے کے اعتبار سے وه مدعو کے خلاف ایک سے زیادہ برائیوں کو پیدا کرنے کا سبب بن جائے گی۔ اورنتیجتاً اس كے اندر داعیانہ ذہن کا خاتمہ ہو جائے گااور دعوتی کام بھی جیوپرڈائز (jeopardize)ہو كر ره جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیوں نے مدعو کی طرف سے آنے والی ہر قسم کی پریشانیوں کو یک طرفہ صبر اور دعا کے ساتھ برداشت کیا، اور دل میں شکایت کو جگہ نہیں دی۔مسلمان داعی ہیں، مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے مدعو سے یک طرفہ حسن تعلق قائم رکھیں۔