خدا کا قانون
اموی خلیفہ عمر بن عبد العزیز (وفات 101ھ) کو امت کے علما خلیفہ راشد خامس کا لقب دیتے ہیں۔ انھوں نے ایک سنت الٰہی کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:إِنَّ اللهَ تبارك وتعالى لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِذَنْبِ الْخَاصَّةِ، وَلَكِنْ إِذَا عُمِلَ الْمُنْكَرُ جِهَارًا، اسْتَحَقُّوا الْعُقُوبَةَ كُلُّهُمْ (موطا امام مالک: 3636)۔ یعنی اللہ کچھ لوگوں کے گناہ پر سب لوگوں کو عذاب نہیں دیتا ، لیکن جب گناہ کھلے طور پر کیا جانے لگے تو سارے ہی لوگ سزا کے مستحق ہوجاتے ہیں۔
جب منکَر ( گناہ کا فعل) کھلے طور پر ہونے لگے تو یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ سماج کے بقیہ لوگوں نے منکَر کو روکنے کا کام ترک کر دیا ہے، وہ اس معاملے میں بے تعلق (indifferent) ہوگئے ہیں۔ ایسا کرنے والے لوگ اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ اللہ کے قانون کے مطابق، منکَر میں مبتلا افراد اگر براہِ راست طور پر اس میں شریک ہیں تو دوسرے لوگ بالواسطہ طور پر اس میں شریک ہیں۔ ایک گروہ اگر فعال طور پر (actively) جرم کا ارتکاب کررہا ہے تو دوسرا گروہ منفعل طور پر (passively) جرم کے عمل میں شریک ہے۔ ارتکابِ جرم کے اعتبار سے، دونوں کے درمیان صرف درجے کا فرق ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے، دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
یہ اصول دراصل ان لوگوں کی ذمہ داری کو بتا رہا ہے، جو بظاہر ارتکابِ جرم میں شریک نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ وہ جرم میں مبتلا لوگوں کو نصیحت کریں، وہ خیرخواہی کے انداز میں لوگوں کو جرم سے باز رکھنے کی کوشش کریں، وہ ہر موثر تدبیر کے ذریعے اصلاحِ حال کی جدوجہد کریں۔ وہ ایسے لوگوں کی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کریں، وہ اپنی متحدہ کوشش کے ذریعہ ایسے حالات پیدا کریں جو مجرمین کی حوصلہ شکنی کرنے والے ہوں — اس مصلحانہ کوشش کو قرآن و حدیث میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کہا گیا ہے۔ اس معاشرے میں کوئی خیر نہیں جس کے اندر امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ مصلحانہ عمل جاری نہ ہو۔اس عمل کو آج کی زبان میں تنقید(criticism)کا نام دیا جاسكتا ہے۔