ماحول کا اثر نہ لینا
قرآن کی سورہ الفتح میں اصحاب رسول کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔ یہ اوصاف اصحاب رسول کے حوالے سے اہل ایمان کے اوصاف ہیں۔ ان اوصاف میں سے ایک صفت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے: وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (48:29)۔یعنی جو لوگ رسول اللہ کے ساتھ ہیں ،وہ منکروں پر سخت ہیں، اور آپس میں مہربان ۔
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کے ساتھیوںکا کردار یہ ہے کہ وہ منکروں پرشدید (سخت) ہیں، اور آپس میں مہربان ۔اشداء علی الکفار عربی زبان کا ایک اسلوب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا انسان کسی کا فکری اثر قبول نہیں کرتا ہے۔ وہ فکری اعتبار سےنہایت مضبوط شخصیت (strong personality) والا ہے۔ وہ اپنے اختیار کردہ اصول کے معاملے میں رُکون (ہود، 11:113)کا طریقہ اختیار نہیں کرتا ہے۔ وہ ماحول کی پیداوار (product) نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے سوچے سمجھے اصول پر قائم رہنے والا انسان ہے۔ سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر کوئی رائے قائم نہیں کرتا، بلکہ وہ ہمیشہ وہی کرتا ہے جس کو وہ حق کے اعتبار سے درست سمجھتا ہے۔ اس معاملے میں وہ ایک بے لچک انسان ہے۔ اس کی شخصیت حالات کے دباؤ کے تحت نہیں بنتی، بلکہ خود اپنے عزم اور اپنے ارادے کے تحت بنتی ہے۔وہ ایک ایسا انسان ہے، جو ہر حال میں اپنے مضبوط کردار پر قائم رہتا ہے۔
اس بات کو ایک اور انداز سے اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ مومن ایک صاحب مشن انسان ہوتا ہے۔ خدا کی کتاب میں تدبر کی بنا پراس کی ایک سوچی سمجھی رائے ہوتی ہے۔ یہ رائے اس کو ایک مضبوط کردار کا آدمی بنادیتی ہے۔ وہ حالات کی پیداوار نہیں ہوتا، بلکہ اس کا مشن یہ ہوتا ہے کہ وہ حکمت کے ساتھ حالات کو صحیح رخ کی طرف موڑ دے۔ اس کا رویہ مفاد پرستی کا رویہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک مصلح اور خیر خواہ انسان کا رویہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے کردار کے اعتبار سے اثر ڈالنے والا ہوتا ہے، نہ کہ اثر قبول کرنے والا۔