ہونے والی بات
میری زندگی میں کئی حادثات ہوئے۔ ان میں سے ایک حادثہ اتنا شدید تھا کہ میں کئی سال تک اس کے لیے غمگین بنا رہا۔ اب میں سوچتا ہوں کہ میرا غمگین ہونا بے فائدہ تھا۔ کیوں کہ جو ہونے والا تھا، وہی ہوا۔ میرے غم سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس طرح کے تجربات کو لے کر میں ایک رائے پر پہنچا ہوں ۔ یہ رائے مبنی بر عقیدہ نہیں ہے، بلکہ مبنی بر تجربہ ہے۔ وہ یہ کہ حالات کی نسبت سے جو ہونے والا تھا، آخر کار وہی ہوا۔ میرے غم کرنے سے اس میںکوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ان تجربات کے بعد میں سمجھا ہوں کہ حقیقت پسندی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے مواقع پر آدمی سارے معاملے کو خدا پر ڈال دے۔ کیوں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ ہمارے اختیار میں صرف دعا کرنا ہے، اس کے سو ا اور کچھ نہیں۔
قرآن کی ایک آیت کا مطلب غالباً یہی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: مَا أَصَابَ مِنْ مُصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ نَبْرَأَهَا إِنَّ ذَلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ ۔ لِكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ (57:22-23)۔ یعنی کوئی مصیبت نہ زمین میں آتی ہے اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہے اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں، بیشک یہ اللہ کے لیے آسان ہے۔ تاکہ تم غم نہ کرو اس پر جو تم سے کھویا گیا۔ اور نہ اس چیز پر فخر کرو جو اس نے تم کو دیا۔
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کسی چیز کا ملنا یا کسی چیز کا چھننا دونوں امتحان (test)کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پیشگی طور پر مقرر فرما دیا ہے کہ کس شخص کو اس کے امتحان کا پر چہ کن کن صورتوں میں دیا جائے گا۔ آدمی کو اصلاً جس چیز پر توجہ دینا چاہیے وہ یہ نہیں کہ اس کو کیا ملا اور اس سے کیا چھینا گیا بلکہ یہ کہ اس نے کس موقع پر کس قسم کا رد عمل پیش کیا۔ صحیح اور مطلوب رد عمل یہ ہے کہ آدمی سے کھویا جائے تو وہ دل برداشتہ نہ ہو اور جب اس کو ملے تو وہ اس کی بنا پر فخر و غرور میں مبتلا نہ ہوجائے۔