منفی سوچ کا طوفان
آج کل مسلمانوں کے جس اخبار یا میگزین کو پڑھا جائے، اس میں صرف ایک ہی بات کا چرچا ملے گا، اور وہ ہے’’مخالفینِ اسلام‘‘ کا چرچا۔اس طرح کی چیزیں سننے اور پڑھنے سے یہ تاثر بنتا ہے کہ اسلام ساری دنیا میں دشمنوں سے گھرا ہوا ہے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اسلام محاصرے میں ہے (Islam is under siege)۔ اس صورتِ حال کے لیے موجودہ زمانے میں ایک اصطلاح بن گئی ہے، جس کو عام طور پر اسلاموفوبیا (islamophobia)کہا جاتا ہے، وغیرہ۔ یہ مفروضہ سوچ بلاشبہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بے بنیاد ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ دنیا کے خالق نے دنیا کو چیلنج کے اصول پر بنایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہاں ہمیشہ چیلنج اور مسابقت کی صورتِ حال باقی رہے۔ یہ صورتِ حال قانونِ فطرت کی بنا پر ہے، نہ کہ کسی کی دشمنی یا سازش کی بنا پر۔ اس لیے یہ صورتِ حال ہمیشہ جاری رہے گی۔ ہمارا کوئی بھی شور وغل اس صورتِ حال کو ختم کرنے والا نہیں۔ اس کے مقابلے میں ہم کو یہ کرنا پڑے گا کہ ہم صورتِ حال کا گہرا مطالعہ کریں، اور اس سے مقابلے کے لیے پرامن منصوبہ بنائیں۔ اس معاملے میں کوئی دوسرا آپشن ہمارے لیے نہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہماری تمام غوغا آرائی کے باوجود یہ صورتِ حال بدستور قائم ہے، اور یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ بھی وہ بدستور جاری رہے گی۔
ایسی صورت میں ہمارے لیے وہ آپشن نہیں ہے کہ ہم مفروضہ سازش کے خلاف غوغا آرائی کی بے نتیجہ سیاست کو جاری رکھیں۔ ہم کو لازمی طور پر یہ کرنا ہوگا کہ اپنے وقت کو مزید اس قسم کی بے فائدہ سیاست میں ضائع نہ کریں۔ بلکہ اس کے بجائے خالص بے لاگ انداز میں صورتِ حال کا مطالعہ کریں، اور اپنی تنزلی کے خاتمہ کے لیے غیر جذباتی انداز میں پرامن منصوبہ بنائیں۔مثلا ً ہمیں یہ کرنا ہے کہ ٹکراؤ کی سیاست کو مکمل طور پر ختم کردیں، اور پرامن انداز میں تعلیم و ترقی کا منصوبہ بنائیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ مسلمان موجودہ دور میں ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہوگئے۔
اب مسلمانوں کو یہ کرنا ہے کہ وہ حقیقت پسندانہ انداز میں اس صورتِ حال کا جائزہ لیں، اور اپنی پسماندگی (backwordness) کو دور کرنے کے لیے جدید معیار پر منصوبہ بنائیں۔ مثلاً تعلیم کے میدان میں ریزرویشن کی مانگ کی سیاست کو مکمل طور پر ترک کردیں، اور اپنے نوجوانوں سے یہ کہیں کہ تم کو مسابقت (compatition) کے میدان میں آگے بڑھنا ہے، ریزرویشن کی مانگ سے تم کو کچھ ملنے والا نہیں۔