تالیفِ قلب
برطانیہ کے سفر (ستمبر 2001)کا ایک واقعہ یہاں قابلِ ذکر ہے۔ ایک تعلیم یافتہ غیر مسلم نے بتایا کہ ایک مسلمان عالم ایک بار ان کے یہاں آئے۔ یہاں کمرے کی دیوار پر ایک کیلنڈر لٹک رہا تھا، جس پر ایک ہندو دیوی کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ مذکورہ شخص نے بتایا کہ نماز کا وقت آیا، تو مولانا صاحب نے اپنی شیروانی اتار کر کیلنڈر کے اوپر لٹکادی۔ اس وجہ سے اس کی تصویر شیروانی کے نیچے چھپ گئی۔ اس کے بعد مولانا صاحب نے میرے کمرے میں نماز ادا فرمائی۔
اس واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ مولانا موصوف نے جو کچھ کیا بجائے خود درست تھا۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک طرف یہ نمونہ ہے، اور دوسری طرف یہ مختلف مثال ہے کہ قدیم مکہ میں 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم وہاں روزانہ نماز ادا کرتے، مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کہ پہلے ان بتوں کے اوپر چادر لٹکائیں، اور پھر وہاں نماز ادا کریں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے ایک اہم دعوتی حکمت معلوم ہوتی ہے۔ دعوت کا کام کرنے کے لیے ایک بے حد ضروری شرط یہ ہے کہ داعی کے اندر ناخوشگوار باتوں کو نظر انداز کرنے کا مزاج موجود ہو۔ وہ ان چیزوں سے پاک ہو، جو مدعو کی نظر میں کٹرپن، تنگ نظری، اور عدمِ رواداری بن جاتی ہے۔ دعوتی کام کے لیے رواداری لازمی شرط ہے۔ داعی کے اندر اگر رواداری کا مزاج نہ ہو تو وہ کامیاب داعی نہیں بن سکتا۔