اکرامِ مسلم، اکرامِ انسانیت
حیدرآباد کے اس سفر میں ایک صاحب نے ملاقات کی اور کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت کی بات کرتے ہیں۔ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کس طرح کیا جائے۔ میں نے کہا کہ دعوت کا عمل گہری خیر خواہی کے جذبہ کے تحت انجام پاتا ہے۔ اور جہاں گہری خیر خواہی ہووہاں یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم یہ کام کیسے کریں۔
میں نے کہا کہ کیا کوئی ماں کسی سے پوچھنے جائے گی کہ میں اپنے بیٹے کی خدمت کس طرح کروں۔ کیا کوئی باپ کسی سے پوچھنے جائے گا کہ میں اپنی اولاد کے ساتھ پدری حقوق کس طرح ادا کروں۔ ماں اور باپ خود اپنی قلبی محبت کے تحت یہ جان لیتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اسی طرح جو لوگ انسان کی محبت میں تڑپیں، جن کے دل میں یہ درد ہوکہ اُن کے آس پاس کے لوگ جہنم میں نہ جائیں، اُنہیں کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ لوگوں کی اصلاح و دعوت کا کام کس طرح کریں۔ اُن کا داخلی جذبہ ہی اُنہیں یہ بتانے کے لیے کافی ہو گاکہ اُنہیں اپنی دعوتی ذمّہ داری کو کس طرح ادا کرنا چاہیے۔ مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اکرامِ مسلم کو جانتے ہیں، اکرامِ انسان کی اہمیت سے شعوری طورپر وہ باخبر ہی نہیں۔