فتویٰ یا دعوت
بھوپال کے سفر میں مولانا اختر قاسمی نے پوچھا کہ فتویٰ کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ موجودہ زمانہ میں طرح طرح کے فتوے جاری کیے جاتے ہیں جن میں لوگوں کو یہ ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ ایسا کریں، ایسا نہ کریں۔ ایسے فتوے کس حد تک درست ہیں۔
میں نے کہا کہ فتویٰ کا مطلب رائے (opinion) ہے۔ فتویٰ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص ایک عالم کے پاس آیا۔ اس نے عالم کے سامنے اپنا ایک مسئلہ بیان کیا، اور اس مسئلہ کے بارے میں شریعت کا حکم جاننا چاہا۔ اس طرح کے سوال پراپنے علم کے مطابق، شرعی حکم بتانا یہ فتویٰ ہے۔
مگر ہمارے یہاں فتویٰ کی ایک اور قسم رائج ہوگئی ہے جو یقینی طورپر غیر شرعی ہے۔ وہ یہ کہ کوئی مفتی یا مفتیوں کا کوئی بورڈ بطور خود یہ فتویٰ جاری کرتا ہے کہ جس کی داڑھی ایک مشت سے چھوٹی ہو اس کے پیچھے لوگوں کے لیے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ فلاں ملک اسلام دشمن ہے اس کی مصنوعات کو خریدنا جائز نہیں، وغیرہ۔ یہ دوسری قسم کا فتویٰ حقیقتاً فتویٰ نہیں، وہ یکطرفہ طورپر ہدایت جاری کرنا ہے، اور اس قسم کی ہدایت جاری کرنے کا اختیار ایک قائم شدہ حکومت کو ہے، نہ کہ کسی مفتی کو۔
صحابہ اور تابعین کی مثال بتاتی ہے کہ وہ حاکمانہ ہدایت کبھی جاری نہیں کرتے تھے۔ اس کے بجائے وہ دعوت و تبلیغ کا کام کرتے تھے۔ مثلاً اگر لوگ داڑھی کی سنت میں غفلت برت رہے ہوں تو صحابہ و تابعین کی سنت کے مطابق، ایسے لوگوں کے درمیان دعوت و تبلیغ کا کام کرنا چاہیے، نہ کہ بائیکاٹ کا فتویٰ صادر کرنا۔ مزید یہ کہ باعتبارِ نتیجہ اس قسم کا فتویٰ سراسر لاحاصل ہے۔ انسان کی اصلاح قلب و ذہن کے بدلنے سے ہوتی ہے، نہ کہ فتاویٰ جاری کرنے سے۔ خود ہندستان کی مثال بتاتی ہے کہ اہلِ بدعت کے خلاف لمبی مدت تک فتاویٰ جاری کرنے کے باوجود کوئی مسلمان بدعت سے تائب نہیں ہوا، مگر تبلیغی جماعت کی دعوتی کوششوں سے بہت سے بدعتی اپنے فعل سے تائب ہوگئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تبلیغی جماعت والوں نے فتویٰ کے بجائے نصیحت و تربیت کا انداز اختیار کیا۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں کے دل بدلے اور وہ بدعات سے تائب ہوگئے۔(ماہنامہ الرسالہ، سفرنامہ بھوپال، مئی 2002)