دعوت کے تجربات
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ ثُمَّ انْظُرُوا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُکَذِّبِینَ (6:11)۔ یعنی کہو، زمین میں چلو پھرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ اس آیت میں ارض (زمین) سے مراد وہی دنیا ہے، جہاں انسان زندگی گزارتا ہے۔ یہاں ارض سے مراد پچھلی قوموں کے معذب علاقے نہیں ہیں۔ معذب اقوام،مثلاً قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود،اہل مدین، اور قوم لوط، وغیرہ۔ بلکہ خدا کی پیدا کردہ زمین ہے، جو اپنے آپ میں ایک عبرت و نصیحت کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اس دنیا میں کھلی آنکھ کے ساتھ رہے۔ وہ دنیا کی تخلیقات میں خالق کو پہچانے۔
میری زندگی کا بڑا حصہ دعوتی اسفار میں گزرا ہے۔ اسفار کا یہ سلسلہ 1967 میں شروع ہوا۔ اس کے بعد مسلسل طور پر جاری رہا۔ یہ تجربات سفرنامے کی صورت میں پہلے الجمعیۃ ویکلی میں شائع ہوتے تھے۔ اس کے بعد یہ سفرنامے 1976 سے ماہنامہ الرسالہ میں شائع ہونا شروع ہوئے۔ یہ سفرنامے بعد کو کتاب کی صورت میں بھی چھپ کر شائع ہوچکے ہیں۔
ان اسفار کے دوران بار بار یہ تجربہ پیش آیا کہ قرآن کا پیغام ابھی تک زیادہ تر صرف عربی زبان میں دستیاب ہے۔ مختلف قوموں کی قابلِ فہم زبانوں میں قرآن کے ترجمے کا کام ابھی امت کے ذمے باقی ہے۔ ان تجربات کے دوران راقم الحروف نے فیصلہ کیا کہ امت کو عمومی طور پر اور اپنی دعوتی ٹیم کو خصوصی طور پر اس کے لیے آمادہ کیا جائے کہ وہ قرآن کی عالمی اشاعت کا نشانہ پورا کریں، تاکہ اس معاملے میں امت کے اوپر عائد ذمے داری اللہ کی توفیق سے انجام پائے۔ ان دعوتی اسفار میں میرے ساتھ جو تجربات گزرے ان میں سے کچھ آنے والے صفحات میں شامل ہیں۔ اللہ تعالی اس مجموعے کی اشاعت کے مقصد کو پورا فرمائے۔
3مارچ 2019 وحید الدین، نئی دہلی