خواص انتظار میں
اس سلسلے کا ایک سبق آموز ذاتی تجربہ یہ ہے کہ میں نے انگریزی اخبار کے لیے ایک مضمون تیار کیا۔ یہ مضمون واضح طورپر موجودہ زمانہ کے ہندو گروؤں اور سوامیوں کے خلاف تھا۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:
The Role of Spirituality in De-stressing the Human Mind.
آج کل ہندو سوامی اور ہندو گرو ملک میں اور ساری دنیا میں بہت بڑے بڑے آشرم چلا رہے ہیں۔ یہاں میڈیٹیشن کی مخصوص تکنیک کے ذریعہ لوگوں کے ذہنی تناؤ کو دور کیا جاتا ہے۔ میرا مضمون اس کے سراسر خلاف تھا۔ انگریزی اخبار کے دفتر میں جب میرا مضمون پہنچا تو وہاں کے ذمہ داروں کے درمیان اس پر بحث ہوئی۔ ایک ہندو صحافی نے کہا کہ یہ مضمون تو ہماری بنیاد کو ڈھارہا ہے۔ دوسرے ہندو صحافیوں نے جواب دیا کہ ہمیں اس سے بحث نہیں۔ یہ مضمون سائنسی اور منطقی دلائل سے بھر پور ہے۔ اس لیے ہم اُس کو اپنے اخبار میں چھاپیں گے۔ چنانچہ یہ مضمون بعینہٖ دہلی کے مشہور انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (31دسمبر2002) میں چھپا تھا۔
سچائی اور کنفیوژن
احمد آباد کے سفر (جنوری 2003)میں ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایسے افراد دیکھے جو بے حد شریف تھے۔ وہ اعلیٰ انسانی اوصاف کے حامل تھے۔ اس کے باوجود وہ سچائی کو نہ پاسکے۔ اس کا سبب میرے تجربہ کے مطابق، ذہنی انتشار (confusion) ہے۔ سوال یہ ہے کہ کنفیوژن کسی کو کیوں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کا دماغ زیادہ تر معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ وہ ایسا نہیں کر پاتے کہ تحلیل و تجزیہ (analysis) کرکے مختلف معلومات سے ایک نتیجہ نکال سکیں۔ وہ متعلق اور غیر متعلق، کا فرق سمجھیں۔ وہ بنیادی اور غیر بنیادی میں تمیز کرسکیں اور پھر مختلف معلومات کو ہضم کرکے صحیح نتیجہ نکالیں۔ اسی ناکامی کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ لوگوں کا معلوماتی ذخیرہ اُن کو صرف کنفیوژن تک پہنچاتا ہے، وہ اُنہیں فکری پختگی عطا نہیں کرتا۔
اسی قسم کے ایک صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کافی ذہین او رتعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سخت ذہنی انتشار میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مسکّن (tranquilizer) استعمال کرکے سوتے ہیں۔