دعوتی تیاری
اس سفر میں ایک صاحب نے اپنی روداد بتائی۔اس سے موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرین کے ایک سفر میں ان کی ملاقات ہندو لیڈر ڈاکٹر پروین توگڑیا سے ہوئی۔ اس طرح انہیں ڈاکٹر توگڑیا سے تقریباً تین گھنٹہ بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اسلام کی امتیازی حیثیت کو بتاتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر توگڑیا سے کہا:
Islam was the culmination of the evolution of religion.
میں نے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اسلام ارتقائی مذہب نہیں ہے بلکہ وہ مذہب کا محفوظ ایڈیشن ہے۔ قرآن میں کئی مقامات پر پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم پچھلے نبیوں کی پیروی کرو۔ مثلاً فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ (6:90)۔ اگر اسلام مذہب کی ارتقائی صورت ہو تو پچھلے پیغمبروں کی پیروی کا حکم ایک ناقابلِ فہم حکم بن جائے گا۔ اسی طرح اسلام کی خصوصیت بتاتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر توگڑیا سے کہا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور اس وقت ہوا جب کہ زمانہ میں مکمل تبدیلی آگئی تھی، اور انسانی ذہن اتنا ترقی کر چکا تھا کہ خالص تعقل کی سطح پر وہ خدا کی معرفت حاصل کرسکے:
Human intelligence had developed sufficiently enough to recognize God through reason.
میں نے کہا کہ یہ ایک مغالطہ آمیزبات ہے۔اس لیے کہ ساتویں صدی عیسوی میں انسانی علم ابھی روایتی دور میں تھا۔ انسانی علم کا روایتی دور سے نکل کر سائنسی دور میں پہنچنا مسلّمہ طورپر بہت بعد کو ہوا۔ اب اس معیار کے مطابق، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اسلام دورِ قدیم کا مذہب ہے، وہ دور جدید کا مذہب نہیں۔اُنہوں نے بتایا کہ گفتگو کے دوران ڈاکٹر توگڑیا نے کہا کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے، اور مسلم تاریخ خون سے لکھی گئی ہے۔ یہ سُن کر مذکورہ مسلمان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیاآپ اس معاملہ میں دوسرے مذاہب کی تاریخ کو جانتے ہیں۔ اُن کی تاریخ بھی اگر زیادہ نہیں تو اس سے کم خونی نہیں۔ ان کے الفاظ یہ تھے:
I countered by asking if he was aware of the history of other religions. They too were not less bloody if not more.
یہ جواب کا وہ طریقہ ہے جس کو الزامی جواب کہا جاتا ہے۔ وہ اُس آدمی کے لیے مفید نہیں جو دین حق کی نمائندگی کر رہا ہو۔ اسلام ہر حال میں با اصول کردار کا حکم دیتا ہے۔ دوسروں کا غلط رویّہ اسلام کے لیے کبھی مثال نہیں بن سکتا۔ ڈاکٹر توگڑیا کے مذکورہ بیان کا صحیح جواب یہ تھا کہ—اسلام اصولی حیثیت سے ایک پُر امن مذہب ہے۔ البتہ مسلمان، خاص طور پر مسلم حکمراں، تشدد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مگر آپ کو چاہیے کہ اسلام اور مسلمان میں فرق کریں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو دیکھیں، نہ کہ مسلمانوں کے عمل کو۔
انہوں نے اپنی گفتگو کی تفصیلی رپورٹ دینے کے بعد آخر میں کہا کہ جب میں نے مسلمانوں میں ریفارم کی ضرورت کو تسلیم کیا تو اس موقع پر ڈاکٹر توگڑیا نے آپ کا نام لیا اور آپ کی کوششوں کے بارہ میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مذکورہ مسلمان کے الفاظ یہ تھے:
Dr. Togadia asked me about you. He said he had not met Maulana Wahiduddin but his colleagues had. He was aware of your views and appreciated them.
اپنے تجربہ کے مطابق، میں ایسے بہت سے مسلمانوں کو جانتا ہوں۔ اسلام کے بارے میں ان کا علم محدود ہے۔ وہ اسلام کے بارے میں جب بولتے ہیں تو وہ اسلام کی یا تو غلط نمائندگی کرتے ہیں یا ناقص نمائندگی۔ ایسے مسلمانوں سے میں کہتا ہوں کہ وہ دو میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ یا تو وہ اپنے دوسرے کاموں کو چھوڑ کر ساری زندگی مطالعہ اور تحقیق میں لگائیں تا کہ وہ اسلام کی صحیح نمائندگی کے قابل ہوسکیں، اور اگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے تو دوسری صورت ان کے لیے یہ ہے کہ اگر کسی عالم نے اپنی پوری زندگی صرف کرکے اسلام پر ایسا لٹریچر تیا رکیا ہے، جس کا اعتراف دوسرے بھی کرتے ہوں تو وہ اس لٹریچر کو استعمال کریں، اور خود لکھنے اور بولنے کے بجائے اُس کی کتابیں دوسروں کو پڑھنے کے لیے دیں۔ مگر بدقسمتی سے ان لوگوں نے تیسری صورت کا انتخاب کر رکھا ہے۔ اور اس طرح کے معاملہ میں تیسرا انتخاب ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔