انسانیت پنا، امت پنا
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ’’امت پنا‘‘ کا تصور اسلام کی آفاقی روح کے خلاف ہے۔ اسلام کی اصل روح ’’انسانیت پنا‘‘ ہے نہ کہ ’’امت پنا‘‘۔ اس معاملہ میں موجودہ مسلمانوں کا مزاج دعوت کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک یہ مزاج نہ بدلے، حقیقی معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہوسکتا۔(ماہنامہ الرسالہ،میرٹھ کا سفر، اپریل2004)
داعیانہ سوچ
واردھا کے سفر (نومبر 2003) میں ایک صاحب مجھ سے ملاقات کے لیے آئے۔اُنہوں نے دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ آپ کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ آپ مسلم دشمن طاقتوں کے آلۂ کار ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اس الزام کا ثبوت کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ آپ اُن لوگوں کے جلسوں میں جاتے ہیں۔ اُن کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔ حالاں کہ مسلم دشمن طاقتوں سے ہم کو دور رہنا چاہئے۔میں نے کہا کہ یہ الزام صرف غلط فہمی پر قائم ہے۔ چوں کہ موجودہ مسلمانوں میں دعوتی ذہن نہیں، وہ صرف قومی ذہن کے تحت سوچنا جانتے ہیں۔ اس لیے وہ ہمارے مِشن کو سمجھ نہیں پاتے۔ اصل یہ ہے کہ ہمارا مِشن دعوت الی اللہ کا مِشن ہے۔ ہم خدا کے پیغام کو خدا کے بندوں تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کام ’’مسلم وار تحریک‘‘ کے ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ مسلم وار تحریک کے ذریعہ مسلمانوں کی اصلاح کا کام ہوسکتا ہے، نہ کہ غیر مسلموں میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا کام۔
داعی ہر ایک کو انسان کی صورت میں دیکھتا ہے۔ وہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ انسانوں کو دوست اور دشمن کے الگ الگ خانوں میں تقسیم کرے۔ وہ کچھ لوگوں کو بطور خود مسلم دوست بتاکر اُن سے قریب ہو، اور کچھ لوگوں کو بطور خود مسلم دشمن قرار دے کر اُن سے دور ہوجائے۔ چوں کہ موجودہ مسلمانوں کا ذہن دعوتی ذہن نہیں ہے، اس لیے وہ مسلم وار تحریک کی اہمیت کو فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ اگر اُن کے اندر دعوتی ذہن ہوتا تو وہ جان لیتے کہ اس مقصد کے لیے ہمیں ہندو وار تحریک، کرشچین وار تحریک، حتّٰی کہ یہودوار تحریک چلانا چاہیے۔ ہم نے اپنے مِشن کے تحت اسلام پر تعارفی لٹریچر بڑی تعداد میں چھاپا ہے۔ ہم اس لٹریچر کو غیر مسلموں تک پہنچانے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ اس دعوتی کوشش کا ایک جزء یہ ہے کہ جب دوسرے مذہب کے لوگ کوئی پروگرام کرتے ہیں اور مجھ کو بلاتے ہیں تو میں وہاں جاتا ہوں، اور موضوع کی نسبت سے وہاں اسلام کا تعارف پیش کرتا ہوں۔