دعوت سے غفلت
میں یہ بات بار بار لکھ چکا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو جو مسائل پیش آرہے ہیں وہ سادہ طورپر صرف مسائل نہیں ہیں۔ وہ خدا کی تنبیہہ (warning) ہیں۔ یہ مسائل مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر یاد دلا رہے ہیں کہ تم اگر تباہی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنی دعوتی ذمہ داری کو پورا کرو۔ یہ حقیقت میں نے قرآن سے اخذ کی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے، اہلِ ایمان کے لیے عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اللہ میں ہے (المائدہ، 5:67)۔
موجودہ زمانہ کے مسلمان نہایت جوش و خروش کے ساتھ ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کی تحریک چلاتے ہیں۔ مگر اس قسم کی تحریکیں مضحکہ خیز حد تک بے معنٰی ہیں۔ ختم نبوت کے تحفظ کی ذمہ داری تو خود اللہ نے لے رکھی ہے پھر مسلمان اس میں کیا رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس قسم کی تحریک اتنا ہی بے معنٰی ہے جتنا کہ شمس و قمر کے تحفظ کی تحریک چلانا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ختمِ نبوت کا تحفظ نہیں ہے بلکہ ختم نبوت کی دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے۔ ختم ِ نبوت کے بعد وہ مقام ِنبوت پر ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کا وہ کام کریں جو پہلے پیغمبر کے ذریعہ انجام پاتا تھا: لِیَکُونَ الرَّسُولُ شَہِیدًا عَلَیْکُمْ وَتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ(22:78)۔ یعنی تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو۔
قرآن اور حدیث اور سیرت کا میں نے جو گہرا مطالعہ کیا ہے اس کی بنیاد پر میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ امت محمدی صرف نماز روزہ کی ادائیگی سے خدا کے یہاں بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ حتیٰ کہ خود ساختہ نظریات کے تحت موجودہ زمانہ میں اسلامی جہاد اور اسلامی سیاست کے جو ہنگامے مسلم دنیا میں جاری ہیں وہ بھی ہر گز اس کی نجات کا ضامن نہیں بن سکتے۔ مسلمانوں پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ اور اس کے تمام آداب و شرائط کے ساتھ اس کو مسلسل انجام دیں۔ دعوتی فرض کی انجام دہی کے بغیر مسلمانوں کا امت ِمحمدی ہونا ہی مشتبہ ہے۔اور جب اصل حیثیت ہی مشتبہ ہو تو انعامات کس بنیاد پر دیے جائیں گے۔