نفرت کی نفسیات
موجودہ زمانہ میں ساری دنیا میں مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ شکایت اور احتجاج کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ موجودہ مسلمان دوسری قوموں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں۔ اس منفی نفسیات کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ مسلمانوں کے اندر دعوت کا مزاج ختم ہوگیا ہے۔ دعوت ایک ایسا عمل ہے جو محبت اور خیر خواہی کی نفسیات کے تحت ظاہر ہوتا ہے۔ نفرت کی نفسیات کے تحت کبھی دعوت کا عمل ظہور میں نہیں آتا۔
عملی دعوت
ایک ہندو خاتون جو واردھا کی کانفرنس میں شریک تھیں انھوں نے کہا کہ میں یہ جاننا چاہتی ہوں کہ نماز کیسے پڑھی جاتی ہے۔ ان کا نام کوکِلّا اپادھیائے تھا۔ وہ پروفیسر ایس اے اپادھیائے کی بیوی تھیں۔ وہ بمبئی سے آئی تھیں (Tel. 23803811)
24 نومبر کی شام کو وہ میرے کمرے میں آئیں۔ میں نے وضو کیا اور ان کے سامنے دو رکعت نماز بلند آواز سے پڑھی۔ وہ بہت غور سے اس کو دیکھتی رہیں اور اس سے کافی متاثر ہوئیں۔ انھوں نے اسلام پر کتابیں پڑھنے کی خواہش ظاہر کی۔ ان کوہمارے یہاں کی چھپی ہوئی چند انگریزی کتابیں دی گئیں۔ اسی طرح اور بھی کئی لوگوں کو کتابیں دی گئیں۔ مثلاً ڈاکٹر نتین ویاس جو بڑودہ یونیورسٹی میں ڈپارٹمنٹ آف فلاسفی کے ہیڈ ہیں۔ (ماہنامہ الرسالہ، واردھا کا سفر، جولائی2004)